> <

1948-02-16
2515 Views
فلم اسٹوڈیو ٭16فروری 1948ء کوپاکستان کے وفاقی وزیر برائے مہاجرین راجہ غضنفر علی خان نے پاکستان کے پہلے فلم اسٹوڈیو ’’پنچولی‘‘ کا افتتاح کیا۔ افتتاحی اجلاس میں 50 افراد نے شرکت کی‘ اس اسٹوڈیو کے مالک سیٹھ دل سکھ پنچولی تھے۔ سیٹھ دل سکھ پنچولی بہت جلد ہندوستان چلے گئے اور ان کے جنرل منیجر دیوان سرداری لال ان کے کاروبار کے نگراں بن گئے۔  
1948-08-07
3384 Views
تیری یاد ٭7 اگست 1948ء کوعیدالفطر کے روز لاہورکے پربھات سینما میں پاکستان میں تیار ہونے والی پہلی فیچر فلم ’’تیری یاد‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے پروڈیوسر دیوان سرداری لال اور ہدایت کار دائود چاند تھے۔ دیوان سرداری لال ایک زیرک اور ہوشیار آدمی تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ پنچولی آرٹ اسٹوڈیوز کے منیجر تھے جب کہ اس اسٹوڈیو کے مالک دل سکھ پنچولی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد دیوان سرداری لال نے دل سکھ پنچولی کو خوفزدہ کرکے پاکستان سے بھگا دیا اور خود ان کے کاروبار کے انچارج بن گئے انہوں نے مسلمان کارکنوں کو اکٹھا کیا اور فلم سازی کی ابتدا کی۔ دائود چاند 1931ء سے فلمی دنیا میں تھے۔ شروع شروع میں وہ خاموش فلموں میں اداکاری کیا کرتے تھے۔ بولتی فلموں کا دور آیا تو ہدایت کار بن گئے۔ بطور ہدایت کار ان کی پہلی فلم ’’جیون کا سپنا‘‘ تھی جو جمنا آرٹ پروڈکشنز کلکتہ کے بینر تلے تیار ہوئی تھی۔ قیام پاکستان سے قبل ان کی ڈائریکٹ کردہ یادگار فلموں میں سپاہی‘ شان اسلام‘ سسی پنوں‘ پرائے دیس میں ‘ آر سی اور ایک روز کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کی ہدایات دینے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ فلم انہوں نے تین ماہ کے عرصے میں مکمل کی تھی۔ تیری یاد کے ہیرو دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی ناصر خان اور ہیروئن آشا پوسلے تھیں جب کہ فلم کے دیگر اداکاروں میں نجمہ‘ سردار محمد‘ رانی کرن‘ زبیدہ‘ جہانگیر ،نذراور ماسٹر غلام قادر شامل تھے۔ اس فلم کی کہانی اور مکالمے خادم محی الدین نے لکھے تھے۔ اس کی موسیقی ماسٹرعنایت علی ناتھ نے ترتیب دی تھی جب کہ اس کے نغمات قتیل شفائی اور تنویر نقوی نے تحریر کیے تھے۔ فلم کی عکاسی رضا میر نے کی تھی، تدوین کار ایم اے لطیف تھے، آڈیو گرافی اے زیڈ بیگ نے کی تھی جبکہ پروسیسنگ کے فرائض پیارے خان اور وارث نے انجام دیئے تھے۔اس فلم کے لیے کل 13 گانے ریکارڈ کیے گئے تھے لیکن فلم میں صرف 10 گانے شامل کیے گئے جنہیں منور سلطانہ‘ علی بخش ظہور اور آشا پوسلے نے گایا تھا۔ بدقسمتی سے ان گیتوں کے ریکارڈ نہیں بنے تھے جن کی وجہ سے یہ گیت عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ ’’تیری یاد‘‘ باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئی مگر اپنے اس اختصاص کی بنا پر کہ وہ پاکستان میں تیار ہونے والی پہلی فیچر فلم تھی‘ آج بھی زندہ ہے۔
1949-07-28
3194 Views
پھیرے ٭28جولائی 1949ء کو عیدالفطر کے موقع پر لاہور کے پیلس سینما میں پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ’’پھیرے‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے فلم ساز نذیر‘ ہدایت کار مجید‘ موسیقار جی اے چشتی ‘ مکالمے اور نغمہ نگار بابا عالم سیاہ پوش اور جی اے چشتی ،عکاس بھائیا حمید اور مصنفہ رانی ممتاز تھیں۔ یہ فلم صرف دو ماہ کے دورانیہ میں مکمل ہوئی اور موسیقار جی اے چشتی نے اس کے تمام نغمے صرف ایک دن میں ریکارڈ کیے جو تمام کے تمام بے حد مقبول ہوئے۔ پھیرے 1945ء میں بننے والی نذیر کی اردو فلم ’’گائوں کی گوری‘‘ کا ری میک تھی۔پھیرے میں اداکار نذیر اور ان کی بیوی سورن لتا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے جب کہ دیگر اداکاروں میں ایم اسماعیل‘ زینت‘ مایا دیوی‘ نذر‘ باباعالم سیاہ پوش اور علائو الدین شامل تھے۔ اس فلم نے لاہورمیں سلورجوبلی منائی اور یوں پاکستان کی ڈگمگاتی فلمی صنعت کو سہارا دیا۔ کراچی میں یہ فلم تاج محل سینما میں 7 اپریل 1950ء کو ریلیز ہوئی جہاں اس نے پانچ ہفتے مکمل کیے۔پھیرے کی بے مثال کامیابی کے بعد پاکستان میں پنجابی فلموں کا راستہ ہموار ہوگیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب اردو زبان سے زیادہ پنجابی زبان میں فلمیں بنائی جانے لگیں۔
1955-06-10
2744 Views
10 جون 1955ء:کراچی کی پہلی فلم ہماری زبان ریلیز ہوئی ٭10جون1955ء کو کراچی میں بننے والی پہلی فلم ہماری زبان نمائش کے لیے پیش ہوئی۔ اس فلم کے فلم ساز بھارت کے مشہور ہدایت کار محبوب خان کے چھوٹے بھائی ایم آر خان اور مصنف اور ہدایت کار شیخ حسن تھے، موسیقی غلام بنی عبداللطیف نے ترتیب دی تھی اور عکاسی شوکت عباس نے کی تھی جبکہ فلم کے نغمات کے لئے اردو کے معروف شعرا کی غزلوں اور نظموں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ہماری زبان کے اداکاروں میں بینا، شیخ حسن، نعیم ہاشمی، رشیدہ، لڈن اور بندو خان شامل تھے جبکہ اس فلم میں مولوی عبدالحق کو بھی دکھایا گیا تھا۔ یہ فلم بدقسمتی سے کامیاب نہ ہوسکی تاہم اس فلم کے بننے سے کراچی میں فلمی صنعت کی بنیاد پڑ گئی۔  
1956-06-08
2644 Views
کنواری بیوہ ٭8 جون 1956ء کو فلم ساز اے جی مرزا اور ہدایت کار نجم نقوی کی فلم ’’کنواری بیوہ‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ فلم باکس آفس پر تو ناکام رہی مگر اس حوالے سے پاکستان کی فلمی صنعت کی ایک یادگار فلم بن گئی کہ اس میں ہیروئن کا کردار ایک بالکل نئی اداکارہ نے ادا کیا تھا جس کا نام شمیم آراء تھا۔ شمیم آراء نے ’’کنواری بیوہ‘‘ کی ناکامی سے حوصلہ نہیں ہارا اور اس کے بعد اس کی کئی فلمیں کامیابی سے ہم کنار ہوئیں۔ان فلموں میں مس 56ء اور انارکلی کے نام سرفہرست ہیں۔ شمیم آراء آج بھی فلمی صنعت میں فعال ہیں اور ایک کامیاب اداکارہ کے ساتھ ساتھ کامیاب فلم ساز اور کامیاب ہدایت کار کے طو رپر جانی جاتی ہیں۔
1957-11-01
4162 Views
نور اسلام ٭یکم نومبر 1957ء کو فلم ساز جے سی آنند اورہدایت کار نذیر کی فلم نور اسلام ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی موسیقی حسن لطیف نے ترتیب دی تھی جب کہ نغمات تنویر نقوی نے اور کہانی عرش لکھنوی نے تحریر کی تھی۔ اس فلم کو اس فلم میں شامل ایک نعت ’’شاہ مدینہ‘ یثرب کے والی‘ سارے نبی تیرے در کے سوالی‘‘ نے یادگار بنا دیا۔ یہ نعت گلوکار سلیم رضا نے گائی تھی اور درپن پر فلم بند ہوئی تھی۔ یہ نعت تنویر نقوی نے تحریر کی تھی مگر بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ نعت نعیم ہاشمی کی تخلیق تھی۔ ان کا کہناہے کہ چونکہ نعیم ہاشمی نے اس فلم میں ایک کردار بھی ادا کیا تھا اس لیے فلم میں انہیں اس نعت کا کریڈٹ نہیں دیا گیا تھا۔        
1958-07-17
2594 Views
نگار فلم ایوارڈز ٭1958ء میں پاکستان کی فلم صنعت کے سب سے معتبر ایوارڈز ’’نگار فلم ایوارڈ‘‘ کا اجرا عمل میں آیا۔یہ ایوارڈز مشہور فلمی ہفت روزے ’’نگار‘‘ کے بانی اور مدیر جناب الیاس رشیدی نے قائم کئے تھے ۔اس سلسلے کے پہلے ایوارڈ 17 جولائی 1958ء کو لاہور کے ایورنیو اسٹوڈیو میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں تقسیم کیے گئے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی حکومت مغربی پاکستان کے وزیر امداد باہمی جناب میر علی احمد تالپور تھے۔ پہلے برس 9 شعبوں میں ایوارڈز تقسیم ہوئے۔ یہ شعبے تھے۔ بہترین فلم‘ بہترین ہدایت کار‘ بہترین کہانی نویس‘ بہترین اداکار‘ بہترین اداکارہ‘ بہترین معاون اداکارہ‘ بہترین معاون اداکار‘ بہترین موسیقار اور بہترین عکاس۔ یہ ایوارڈز 1957ء میں ریلیز ہونے والی فلموں پر دیے گئے۔ اس برس بہترین فلم کا ایوارڈ فلم سات لاکھ کو‘ بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ ڈبلیو زیڈ احمد کو فلم وعدہ پر‘ بہترین کہانی کا ایوارڈ سیف الدین سیف کو فلم سات لاکھ پر‘ بہترین اداکارہ کا ایوارڈ صبیحہ خانم کو فلم سات لاکھ پر‘ بہترین اداکار کا ایوارڈ سنتوش کمار کو فلم وعدہ پر‘ بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ نیر سلطانہ کو فلم سات لاکھ پر‘ بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ علائو الدین کو فلم آس پاس پر‘ بہترین موسیقار کا ایوارڈ رشید عطرے کو فلم سات لاکھ پر اور بہترین عکاس کا ایوارڈ سہیل ہاشمی کو فلم بڑا آدمی پر دیا گیا۔ اس طرح سات لاکھ نے سب سے زیادہ ایوارڈز یعنی 5 ایوارڈز حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ نگار فلم ایوارڈز دیے جانے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور آج بھی انہیں پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے اہم اور معتبر ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔
1959-05-25
3113 Views
جاگو ہوا سویرا ٭25 مئی 1959ء کو فلم ساز نعمان تاثیر اور ہدایت کار اے جے کاردار کی فلم جاگو ہوا سویرا ریلیز ہوئی یہ فلم پاکستان کی فلمی تاریخ میں اس حوالے سے یادگار بن گئی کہ اس فلم کی کہانی اور گانے فیض احمد فیض کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔جاگو ہوا سویرا کی کاسٹ میں تری پتی مترا‘ انیس‘ زورین اور رخشی شامل تھے اور اس فلم کی موسیقی تیمر بارن نے ترتیب دی تھی۔ یہ فلم پاکستان میں تو کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کرسکی لیکن اس فلم نے کئی بین الاقوامی اعزازات ضرور حاصل کیے۔ ان اعزازات میں ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کا دوسرا انعام اور امریکا کی رابرٹ فلے ہارٹی فلم فائونڈیشن کا 1959ء کا کسی غیر ملکی زبان کی بہترین فلم کا اعزاز سرفہرست تھے۔ اس فلم کی امریکا، سوویت یونین، فرانس،بلجیم، مشرقی افریقا اور چین میں بھی نمائش ہوئی جس کے لئے اسے انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں سب ٹائٹلز کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔  
1960-12-23
3226 Views
سہیلی ٭23 دسمبر 1960ء کو فلم سہیلی ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے پروڈیوسر ایف ایم سردار اور ایس ایم یوسف اور ہدایت کار ایس ایم یوسف تھے۔ موسیقی اے حمید نے ترتیب دی تھی کہانی حسرت لکھنوی نے لکھی تھی جب کہ فلم کے نغمہ نگار فیاض ہاشمی تھے۔ فلم سہیلی کے مرکزی کردار شمیم آراء‘ نیر سلطانہ‘ درپن اور اسلم پرویز نے ادا کیے تھے۔ فلم سہیلی کئی حوالوں سے بڑی یادگار فلم قرار پائی جن میں سب سے بڑا حوالہ تو یہی تھا کہ اس سال حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈز کا اجرا کیا جن میں سب سے زیادہ یعنی پانچ ایوارڈز فلم سہیلی کو ملے۔ ان ایوارڈز میں بہترین فلم‘ بہترین ہدایت کار (ایس ایم یوسف) بہترین اداکارہ (شمیم آراء) بہترین ساتھی اداکار (طالش) اور بہترین ساتھی اداکارہ (نیر سلطانہ) کے ایوارڈز شامل تھے۔ یہی نہیں‘ بلکہ فلم سہیلی نے چار نگار ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ صدارتی ایوارڈز میں شمیم آرا کو بہترین اداکارہ کا اور نیر سلطانہ کو بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ ملا تھا جب کہ نگار ایوارڈز میں نیر سلطانہ کو بہترین اداکارہ کا اور شمیم آراء کو بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیاجسے شمیم آراء نے بطور احتجاج قبول کرنے سے انکار کردیا ۔فلم سہیلی میں ایس ایم یوسف کو بہترین ہدایت کار کا اور اداکار درپن نے بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ یوں فلم سہیلی نے مجموعی طور پر پانچ صدارتی اور چار نگار ایوارڈز حاصل کیے۔  
1961-05-27
3173 Views
 صدارتی ایوارڈز ٭27 مئی 1961ء کو لاہور کے باغ جناح میں منعقد ہونے والی ایک رنگا رنگ تقریب میں پاکستانی فلموں کو مختلف شعبوں میں صدارتی ایوارڈز تقسیم کیے گئے۔ اس تقریب کی صدارت صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو کرنی تھی مگر ان کی مصروفیات کی وجہ سے یہ فریضہ وفاقی وزیر اطلاعات اور تعمیر نو جناب حبیب الرحمن نے ادا کیا۔ یہ صدارتی ایوارڈز 1960ء میں ریلیز ہونے والی فلموں پر پیش کیے گئے۔اس ایوارڈ کے لیے منصفین کے سامنے مجموعی طور پر 37 فلمیں پیش ہوئیں جن میں 31 فیچر فلمیں اور 6 دستاویزی فلمیں شامل تھیں۔ ابتدا میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ ایوارڈز مجموعی طور پر 18 شعبوں میں تقسیم کیے جائیں گے مگر 6 شعبوں (بہترین دستاویزی فلم، بہترین نغمہ، صدابندی، پروسیسنگ، تدوین اور آرٹ ڈائریکشن) کے معیار پر کوئی فلم پوری نہیں اتری چنانچہ 18 شعبوں کی بجائے صرف 12 شعبوں میں صدارتی ایوارڈز تقسیم کیے جاسکے۔ ان  ایوارڈز کی تفصیل حسب ذیل تھی: بہترین فلم: سہیلی (فلم ساز ایس ایم یوسف اور ایف ایم سردار)، بہترین ہدایت کار: ایس ایم یوسف (فلم سہیلی)، بہترین کہانی نگار: دانش دیروی (فلم اور بھی غم ہیں)، بہترین مکالمہ نگار: شاطر غزنوی (فلم بھابی)، بہترین اداکار: ظریف (فلم بہروپیا)، بہترین اداکارہ: شمیم آراء (فلم سہیلی)، بہترین معاون اداکار: طالش (فلم سہیلی)، بہترین معاون ادکارہ: نیر سلطانہ (فلم سہیلی)، بہترین موسیقار: تصدق حسین (فلم: روپ متی باز بہادر)، بہترین گلوکار یا گلوکارہ: روشن آرا بیگم (فلم: روپ متی باز بہادر)، بہترین عکاس: نبی احمد (فلم: ایاز)اور بہترین بنگالی فلم: آسیہ۔فلم ’’سہیلی‘‘ پانچ شعبوں میں صدارتی ایوارڈ حاصل کرکے سرفہرست رہی۔ بدقسمتی سے آئندہ برسوں میں فلم کے شعبے میں دیئے جانے والے صدارتی ایوارڈز کا یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور یوں یہ ایوارڈز صرف ایک مرتبہ تقسیم ہوسکے۔  
UP