> <

1902-04-04
5792 Views
استاد بڑے غلام علی خان ٭4 اپریل 1902ئبرصغیر پاک و ہند کے عظیم موسیقار استاد بڑے غلام علی خان کی تاریخ پیدائش ہے۔ استاد بڑے غلام علی خان کا تعلق موسیقی کے پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ و ہ قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ تھے اور اس کے رتنوں میں شامل تھے جب کہ ان کے والد علی بخش خان اور چچا کالے خان پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد تھے۔ جلد ہی استاد بڑے غلام علی خان کے فن کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیلنے لگی۔ انہوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں شرکت کی اور اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ انہوں نے گائیکی میں اپنی ترامیم سے بہت سی خوبیاں پیدا کیں۔ ان کی آواز میں ایک گھومتا سا ارتعاش تھا اور گانے میں بافراغت گفتگو کی سی بے تکلفی تھی جو لاہور کی فصیل کے اندر رہنے والے مسلمان بے فکروں سے مخصوص ہے۔ جن لوگوں نے استاد بڑے غلام علی خان کو سنا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ تان سین‘ بیجو باورا اور نائک ہری داس سوامی کے ہم مرتبہ فنکار تھے۔ قیام پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خان نے پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بدقسمتی سے ریڈیو پاکستان کے بڑے افسران کی بے حسی اور تحکمانہ انداز سے دلبرداشتہ ہوکر 1954ء میں وہ بھارت منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔ بھارت میں استاد بڑے غلام علی خان کی بڑی پذیرائی ہوئی اور انہیں بھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن کے علاوہ سردیوتا‘ سنگیت سمراٹ اور شہنشاہ موسیقی جیسے خطابات کے علاوہ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ 23 اپریل 1968ء کو وہ حیدرآباد (دکن) میں انتقال کرگئے جہاں وہ اپنے ایک عقیدت مند نواب مشیر یار جنگ کے پاس مقیم تھے۔ وہ حیدرآباد(دکن) ہی میں آسودۂ خاک ہوئے۔  
1902-05-31
6309 Views
احمد علی غلام علی چاگلہ ٭ پاکستان کے ممتاز موسیقار اور پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کے خالق جناب احمد علی غلام علی چاگلہ 31 مئی 1902ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے سندھ مدرسہ کراچی سے تعلیم حاصل کی اور کراچی کے نامور موسیقار مہاراج سوامی داس کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا۔ جناب احمد علی غلام علی چاگلہ نے انگلستان میں ٹرنٹی کالج آف میوزک سے بھی تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان سے پہلے انہوں نے بمبئی میں ایک فلم کمپنی اجنتا میں بطور موسیقار کام کیا۔ پاکستان بننے کے بعد حکومت پاکستان نے انہیں قومی ترانے کی موسیقی تیار کرنے والی کمیٹی کا رکن مقرر کیا۔ مگر یہ دھن تیار کرنے کا اعزاز انہی کی قسمت میںلکھا تھا چنانچہ 21 اگست 1949ء کو حکومت نے ان کی تیاری کردہ دھن کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کرلیا۔ یہی وہ دھن تھی جسے بعد میں ابوالاثر حفیظ جالندھری نے الفاظ سے ہم آہنگ کیا۔ 5 فروری 1953ء کو جناب احمد علی غلام علی چاگلہ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے 43 برس بعد1996ء میں حکومت پاکستان نے انہیں بعدازمرگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا۔  
1910-11-15
5756 Views
فیروز نظامی ٭15 نومبر پاکستان کے نامور موسیقار فیروز نظامی کی تاریخ پیدائش بھی ہے اور تاریخ وفات بھی۔ فیروز نظامی 15 نومبر 1910ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے ان کا تعلق لاہور کے ایک فن کار گھرانے سے تھا۔ اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کیا ساتھ ساتھ ہی اپنے گھرانے کے مشہور استاد استاد عبدالوحید خان کیرانوی سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھتے رہے اور بہت جلد خود بھی موسیقی میں درجہ استادی پر فائز ہوگئے۔ 1936ء میں جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات کا آغاز ہوا تو فیروز نظامی اس ادارے سے بطور پروڈیوسر وابستہ ہوگئے اور لاہور کے بعد دہلی اور لکھنو کے ریڈیو اسٹیشن سے اپنے فن کا جادو جگاتے رہے کچھ عرصہ بعد وہ آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت ترک کرکے بمبئی پہنچ گئے۔ بمبئی میں انہیں فلمی صنعت نے خوش آمدید کہا یہ وہ زمانہ تھا جب ماسٹر غلام حیدر اور استاد جھنڈے خان جیسے موسیقار بمبئی کی فلمی صنعت پر چھائے ہوئے تھے ان بڑے موسیقاروں کی موجودی میں فیروز نظامی نے اپنے فن کا لوہا منوایا۔ بمبئی میں ان کی ابتدائی فلموں میں وشواس‘ بڑی بات‘ امنگ‘ اس پار‘ شربتی آنکھیں‘ امر راج‘ نیک پروین‘ پتی سیوا اور رنگین کہانی شامل تھیں مگر انہیں جس فلم سے ہندوستان گیر شہرت ملی وہ شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی۔ اس فلم میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے مگر اس فلم کی کامیابی میں فیروز نظامی کی خوبصورت موسیقی کا بھی بڑا دخل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور واپس آگئے جہاں انہوں نے شوکت حسین رضوی کی فلم چن وے اور سبطین فضلی کی فلم دوپٹہ کی لازوال موسیقی ترتیب دی۔ فیروز نظامی کی موسیقی سے مزین دیگر فلموں میں ہماری بستی‘ شرارے‘ سوہنی‘ انتخاب‘ راز‘ قسمت‘ سولہ آنے‘ زنجیر‘ منزل‘ سوکن‘ غلام اور سوغات شامل تھیں۔ فیروز نظامی نے صرف فلموں کے لیے موسیقی ہی ترتیب نہیں دی بلکہ انہوں نے موسیقی میں اپنے اساتذہ سے جو کچھ سیکھا‘ اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے بھی عملی اقدامات کیے اس سلسلے میں انہوں نے کئی کتابیں تحریر کیں جن میں اسرار موسیقی‘ رموز موسیقی اور سرچشمۂ حیات کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان آرٹس کونسل لاہور کی میوزک اکیڈمی میں بھی موسیقی پر لیکچر دیتے رہے اور ان کے مضامین بھی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ان کے شاگردوں میں سلیم حسین‘ اقبال حسین سرفہرست ہیں جنہوں نے بعد میں سلیم اقبال کے نام سے کئی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ ان کے علاوہ نامور گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی فیروز نظامی کے سر ہے۔ فیروز نظامی معروف ادیب سراج نظامی کے چھوٹے اور نامور کرکٹر نذر محمد کے بڑے بھائی تھے۔ ان کا انتقال 15 نومبر 1975ء کو ان کی 65ویں سالگرہ کے دن ہوا۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔          
1912-03-21
5255 Views
خواجہ خورشید انور ٭پاکستان کے نامور موسیقار خواجہ خورشید انور 21 مارچ 1912ء کو میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد خواجہ فیروز الدین موسیقی کا بڑا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ خواجہ خورشید انور نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور انڈین سول سروس کے تحریری امتحان میں ہندوستان بھر میں اوّل آئے تاہم بھگت سنگھ اور اس کی تحریک سے وابستگی کی وجہ سے وہ انٹرویو میں کامیاب نہ ہوسکے اور یہی ناکامی ان کی سب سے بڑی کامیابی بن گئی۔ خواجہ خورشید انور نے استاد توکل حسین خان صاحب سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ 1940ء میں انہوں نے اے آر کاردار کی دعوت پر فلم کڑمائی کی موسیقی ترتیب دی۔ بعدازاں انہوں نے فلم اشارہ، پرکھ، یتیم، پروانہ، پگ ڈنڈی، آج اور کل، سنگھار، نشانہ اور نیلم پری کے نغمات بھی کمپوز کئے۔ 1952ء میں وہ مستقل طور پر پاکستان کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوںنے مجموعی طور پر 18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ان میں 15 فلمیں اردو زبان میں اور 3 فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔ پاکستان میں خواجہ صاحب کی مقبول ترین فلموں میں انتظار، زہر عشق، جھومر، کوئل، گھونگھٹ، چنگاری، ہمراز، حویلی، ہیر رانجھا، حیدر علی اور مرزا جٹ کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے گھونگھٹ، چنگاری اور ہمراز سمیت چند فلموں کی ہدایات بھی دیں۔ 1955ء میںانہوں نے فلم انتظار کے لئے بہترین کہانی نگار، بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کئے۔ زہر عشق، گھونگھٹ اور ہیر رانجھا کی موسیقی ترتیب دینے پر انہیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز کا اعزاز عطا کیا۔ خواجہ خورشید انور نے ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون بھی تخلیق کی تھی۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ راگ مالا اور آہنگ خسروی ہے جس کے ذریعہ کلاسیکی موسیقی کے معروف گھرانوں کے 90 راگ محفوظ کردیئے گئے ہیں۔ 30 اکتوبر 1984ء کو خواجہ خورشید انور دنیا سے رخصت ہوگئے۔        
1952-03-25
3109 Views
استاد بیبو خان ٭25 مارچ 1952ء کو سندھ کے نامور موسیقار استاد بیبو خان، حیدرآباد میں وفات پاگئے اور ٹنڈو یوسف کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ استاد بیبو خان کا اصل نام محمد ابراہیم قریشی تھا۔ وہ 1904ء میں شکارپور میں پیدا ہوئے تھے۔ استاد بیبو خان نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد گامن خان اور استاد مبارک علی خان اور استاد مراد علی سے حاصل کی۔ وہ اپنے خاندانی ورثے یعنی دھرپد گانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی گائیکی کا شہرہ دور دور تک تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں اس زمانے میں آل انڈیا ریڈیو بمبئی میں ہر ماہ گانے کے لئے مدعو کیاجاتا تھا۔ استاد بیبو خان کے شاگرد وں میں استاد قدرت اللہ خان، استاد نیاز حسین، استاد فدا حسین خان، محمد ہاشم کچھی، ہادی بخش خان، مائی اللہ وسائی، محمد صالح ساند اور اللہ دینو نوناری کے نام سرفہرست ہیں۔  
1952-10-11
4707 Views
استاد جھنڈے خان برصغیر کے نامور موسیقار استاد جھنڈے خان 11 اکتوبر1952ء کو گوجرانوالہ میں وفات پا گئے۔ استاد جھنڈے خان کا اصل نام میاں غلام مصطفی تھا اور وہ 1866ء میں جموں کے ایک گائوں کوٹلی اوکھلاں میں پیدا ہوئے تھے۔ علم موسیقی کے حصول کے لیے انہوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا اور پھر بمبئی کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں انہوں نے موسیقی کے بھنڈی بازار گھرانے کے موسیقاروں چھجو خان، نذیر خان اور خادم حسین خان سے اکتسابِ فیض کیا۔ موسیقی کے علم میں استعداد بہم پہنچانے کے بعد وہ مختلف تھیٹریکل کمپنیوں کے ساتھ وابستہ رہے اور ان کے لیے خوب صورت بندشیں اور دھنیں اختراع کرتے رہے۔ پھر بولتی فلموں کا دور آیا تو انہوں نے تیس سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ اپنی زندگی کے آخری دور میں انہوں نے ایک اور فنی کرشمہ دکھایا اور وہ یہ کہ فلم ’’چتر لیکھا‘‘ کی تمام دھنیں ایک ہی راگ (بھیرویں) میں ترتیب دیں۔ سُر ایک ہی تھے لیکن ان کے زیر و بم میں ایسا تنوع رکھا تھا کہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ سننے والا ایک ہی راگ سن رہا ہے۔ استاد جھنڈے خان نے اپنے کمالات سے فلمی موسیقی کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ برصغیر کی فلمی موسیقی انہی کے فنی اجتہاد اور رہبری کی مرہونِ منت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد استاد جھنڈے خان گوجرانوالہ میں رہائش پذیر ہوئے اور وہیں 11اکتوبر 1952ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔
1953-02-05
6309 Views
احمد علی غلام علی چاگلہ ٭ پاکستان کے ممتاز موسیقار اور پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کے خالق جناب احمد علی غلام علی چاگلہ 31 مئی 1902ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے سندھ مدرسہ کراچی سے تعلیم حاصل کی اور کراچی کے نامور موسیقار مہاراج سوامی داس کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا۔ جناب احمد علی غلام علی چاگلہ نے انگلستان میں ٹرنٹی کالج آف میوزک سے بھی تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان سے پہلے انہوں نے بمبئی میں ایک فلم کمپنی اجنتا میں بطور موسیقار کام کیا۔ پاکستان بننے کے بعد حکومت پاکستان نے انہیں قومی ترانے کی موسیقی تیار کرنے والی کمیٹی کا رکن مقرر کیا۔ مگر یہ دھن تیار کرنے کا اعزاز انہی کی قسمت میںلکھا تھا چنانچہ 21 اگست 1949ء کو حکومت نے ان کی تیاری کردہ دھن کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کرلیا۔ یہی وہ دھن تھی جسے بعد میں ابوالاثر حفیظ جالندھری نے الفاظ سے ہم آہنگ کیا۔ 5 فروری 1953ء کو جناب احمد علی غلام علی چاگلہ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے 43 برس بعد1996ء میں حکومت پاکستان نے انہیں بعدازمرگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا۔  
1953-11-09
4831 Views
ماسٹر غلام حیدر ٭9 نومبر 1953ء کو پاکستان کے مشہور موسیقار ماسٹر غلام حیدر دنیا سے رخصت ہوئے۔ ماسٹر غلام حیدر 1906ء میں حیدرآباد (سندھ) میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدا ہی سے انہیں ہارمونیم بجانے سے بڑی دلچسپی تھی۔ اسی دلچسپی کے باعث وہ لاہور کے ایک تھیٹر سے وابستہ ہوگئے۔ اس وابستگی کے دوران انہیں ہندوستان کے مختلف شہروں کے سفر اور کئی اہم موسیقاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔ 1932ء میں وہ لاہور کی ایک ریکارڈنگ کمپنی جین او فون سے منسلک ہوئے۔ اس ادارے سے استاد جھنڈے خان، پنڈت امرناتھ اور جی اے چشتی بھی منسلک تھے۔ ماسٹر غلام حیدر کچھ عرصہ استاد جھنڈے خان کے معاون بھی رہے۔ 1933ء میں اے آر کاردار کی فلم سورگ کی سیڑھی سے ان کے فلمی سفر کا آغاز ہوا، اس کے بعد انہوں نے فلم مجنوں کی موسیقی ترتیب دی، تاہم ان کی شناخت فلم ساز اور ہدایت کار دل سکھ پنچولی کی فلم گل بکائولی بنی جو 1938ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے لاہور میں بننے والی کئی مزید فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں یملا جٹ، خزانچی، چوہدری اور خاندان کے نام شامل ہیں۔ 1944ء میں وہ ہدایت کار محبوب کی دعوت پر بمبئی منتقل ہوگئے۔ بمبئی کے قیام کے دوران ان کی جن فلموں نے کامیابی حاصل کی ان میں ہمایوں، چل چل رے نوجوان، بیرم خان، جگ بیتی، شمع، مہندی، مجبور اور شہید کے نام سرفہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں ماسٹر غلام حیدر واپس لاہور آگئے۔ یہاں انہوں نے فلم شاہدہ، بے قرار، اکیلی، غلام اور گلنار سمیت 7 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی آخری فلم گلنار تھی جو ان کی وفات سے 3 روز قبل ریلیز ہوئی تھی۔ ماسٹر غلام حیدر کا شمار رجحان ساز موسیقاروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے برصغیر کی فلمی موسیقی کو ایک نیا رنگ دیا۔ وہ پہلے موسیقار ہیں جنہوں نے پنجاب کی لوک دھنوں کو اپنے گیتوں میں استعمال کیا۔ انہوں نے کئی نامور گلوکارائوں کو فلمی صنعت سے متعارف کروایا جن میں زینت بیگم، شمشاد بیگم، نورجہاں اور لتا منگیشکر کے نام سرفہرست ہیں۔ ماسٹر غلام حیدر لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔          
1955-01-13
3761 Views
استاد بندو خان ٭13 جنوری 1955ء کو کراچی میں مشہور موسیقار اور سارنگی نواز استاد بندو خان نے وفات پائی۔ استاد بندو خان 1880ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علی جان خان بھی سارنگی بجاتے تھے اور استاد ممّن خان، جنہوں نے سر ساگر ایجاد کیا ان کے ماموں تھے۔ استاد بندو خان نے سالہا سال اپنے ماموں سے سارنگی کے اسرار و رموز سیکھے پھر وہ ایک ملنگ میاں احمد شاہ کے شاگرد ہوئے جنہوں نے انتہائی شفقت اور محبت سے بندو خان کو اپنے علم کا سمندر منتقل کردیا۔قیام پاکستان کے بعد بندو خان پاکستان چلے آئے اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ ایک مختصر سی علالت کے بعد 13 جنوری 1955ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ کراچی میں آسودہ خاک ہوئے۔ استاد بندو خان کو ان کی وفات کے بعد 1959ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔  
1957-10-21
3210 Views
استاد مبارک علی خان ٭21 اکتوبر 1957ء کو نامور ماہر موسیقار اور گلوکار استاد مبارک علی خان کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ استاد علی بخش خان کے فرزند اور استاد برکت علی خان اور استاد بڑے غلام علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ استاد مبارک علی خان 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1938ء میں وہ فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور بطور ہیرو اور گلوکار فلم مہارانی اور سوہنی کمہارن میں کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعدانہوں نے دو فلموں دو آنسو اور شالیمار کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ وہ موسیقی میں اپنے والد استاد علی بخش خان، بڑے بھائی استاد بڑے غلام علی خان اور استاد سردار خان دہلی والے کے شاگرد تھے۔ استاد مبارک علی خان نے سینکڑوں افراد کوموسیقی کی تعلیم سے آراستہ کیا۔ وہ لاہورمیں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔    
UP