1902-08-06

ایم اسماعیل ٭پاکستان کے مشہور اداکار ایم اسماعیل کی تاریخ پیدائش 6 اگست 1902ء ہے۔ ایم اسماعیل اندرون بھاٹی گیٹ لاہور کے ایک خطاط خاندان میں پیدا ہوئے اور یوں خطاطی اور مصوری انہیں ورثے میں ملی۔ 1921ء میں ان کے ہم محلہ نوجوان اے آر کاردار نے انہیں اداکاری کا شوق دلایا۔ اس شوق کی خاطر وہ بمبئی چلے گئے مگر جب لاہور میں خاموش فلموں کا آغاز ہوا تو وہ واپس لاہور آگئے۔ ان کی خاموش فلموں میں حسن کا ڈاکو، بریوہارٹ، آوارہ رقاصہ اور ہیررانجھا بہت مشہور ہوئیں۔ آخری الذکر فلم میں انہوں نے کیدو کا کردار ادا کیا۔ بولتی فلموں کا دور شروع ہوا تو انہوں نے یہی کرداراسی داستان پر بننے والی فلموں حور پنجاب اور ہیرسیال میں بھی ادا کیا۔ ایم اسماعیل کی دیگر فلموں میں یملا جٹ، گل بکاولی، خزانچی، پھول، سوہنی مہینوال، وامق عذرا اور لیلیٰ مجنوں کے نام شامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی انہوں نے پاکستان میں بننے والی متعدد فلموں میں کام کیا۔ ان کی فلموں کی مجموعی تعداد 156 تھی، ان کی آخری فلم مان جوانی دا تھی جو 1977ء میں ریلیز ہوئی۔ 1957ء میں فلم قسمت میں انہیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 22 نومبر 1975ء کو ایم اسماعیل لاہور میں وفات پاگئے اور وہیں نیشنل ٹائون ساندہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1910-05-17

اداکار ایم اجمل ٭ پاکستان کے مشہور فلمی اداکار ایم اجمل کا اصل نام محمد اجمل قادری تھا اور وہ 17 مئی 1910ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ایم اجمل نے فلمی زندگی کا آغاز آر ایل شوری کی فلم ’’سوہنی مہینوال‘‘ سے کیا پھر یکے بعد دیگرے ان کی کئی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں گل بکائولی، سوہنی کمہارن، یملاجٹ، گل بلوچ، شہر سے دور، آر سی، پونجی، خاندان، زمیندار، کیسے کہوں اور خزانچی کے نام سرفہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے جن فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان کی یادگار فلموں میں ہچکولے، دو آنسو، یکے والی، زمیندار، حسرت، کرتار سنگھ، ماں کے آنسو اور تیس مار خان کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے ہدایت کار نذیر کی فلم ’’ہیر‘‘ اور مسعود پرویز کی فلم ’’ہیررانجھا‘‘ میں کیدو کا جو کردار ادا کیا وہ ان کی فنی زندگی کا سب سے یادگار کردار سمجھا جاتا ہے۔ ایم اجمل نے مجموعی طور پر 212 فلموں میں کام کیا جن میں 135 فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔ ان کی آخری فلم ’’بابل‘‘ تھی جو ان کی وفات کے بعد 1990ء میں ریلیز ہوئی تھی۔پنجابی فلموں کے مشہور اداکار اکمل، ایم اجمل کے چھوٹے بھائی تھے۔ 19جون 1988ء کو اداکار ایم اجمل وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں فیروز پور روڈ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1920-12-10

علائو الدین ٭ پاکستان کے مقبول اداکار علائوالدین 10 دسمبر 1920ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں انہوں نے گلوکاری کے میدان میں قسمت آزائی کرنی چاہی مگر ان کی فلمی زندگی کا آغاز سے اداکاری سے ہوا اور یہی شعبہ ان کی پہچان بن گیا۔ علائو الدین نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ممبئی سے کیا اور وہاں سنجوگ، نمستے، لیلیٰ مجنوں اور میلہ میں کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے جہاں ان کی پہلی فلم پھیرے تھی۔ اس کے بعد انہوں نے شہری بابو، محبوبہ، محل، انوکھی، وعدہ، انتقام، پاٹے خان، پینگاں، مرزا صاحباں، حمیدہ، آدمی، مجرم اور متعدد دوسری فلموں میں کام کیا تاہم فلم کرتار سنگھ کے ٹائٹل رول میں تو انہوں نے اداکاری کی انتہا کو چھولیا۔ اس کے بعد مہتاب اور بدنام میں ادا کئے ہوئے کرداران کی پہچان بنے۔ علائو الدین نے مجموعی طور پر 319 فلموں میں کام کیا جن میں سے 194 فلمیں اردو میں اور 125 فلمیں پنجابی میں بنائی گئی تھیں۔ علائو الدین نے مجموعی طور پر آٹھ مرتبہ نگار ایوارڈز حاصل کیا۔ انہیں ’’پاکستان کا عوامی اداکار‘‘ کہا جاتا تھا۔ ٭13 مئی 1983ء کو اداکار علائوالدین لاہور میں وفات پاگئے اور گلبرگ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
1923-11-10

آغا طالش * پاکستان کے نامور فلمی اداکار آغا طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا اور وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے بمبئی میں بننے والی فلم سرائے سے باہر سے اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک ہوئے اور پھرفلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ پاکستان میں ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، دربار حبیب، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی ،فرنگی، زرقا، وطن، نیند، کنیز، لاکھوں میں ایک، زینت، امرائو جان ادا اور آخری مجرا کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے 7 فلموں میں نگار ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ 19 فروری 1998ء کو آغا طالش وفات پاگئے۔ وہ کریم بلاک علامہ اقبال ٹائون لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1926-12-25

سنتوش کمار ٭11جون 1982ء کو پاکستان کے نامور اور اپنے زمانے کے مقبول ترین فلمی اداکار سنتوش کمار دنیا سے رخصت ہوئے۔ سنتوش کمار کا تعلق ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا اور وہ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور پھر اپنے ایک دوست کے اصرار پر ایک فلم میں ہیرو کے رول کی پیشکش کو قبول کرلیا۔ انہوں نے بمبئی کی فلمی صنعت کی دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے جہاں انہوں نے مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنے پاکستانی سفر کا آغاز کیا۔ منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوئی تاہم اس کے بعد بننے والی فلموں ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا استحکام بخشا۔ بعدازاں شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار نے انہیں پاکستان کا سب سے بڑا اداکار بنادیا۔ اسی دوران ان کی شادی صبیحہ خانم سے ہوئی۔ یہ شادی بھی پاکستان کی فلمی صنعت کی کامیاب اور قابل رشک شادیوں میں شمار ہوتی ہے۔ سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائیلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے مجموعی طور پر 92 فلموں میں کام کیا جن میں 10 پنجابی فلمیں بھی شامل تھیں۔ انہوں نے 3 مرتبہ (وعدہ، گھونگھٹ اور دامن میں) بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ سنتوش کمار لاہور میں مسلم ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1928-10-04

اداکار ادیب ٭ پاکستان کے مشہور اداکار ادیب 4 اکتوبر 1928ء کو بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام مظفر علی تھا ۔ ادیب نے اپنے فنکارانہ زندگی کا آغاز ایک تھیٹر کمپنی سے بطور مصنف کیا پھر انہیں پرتھوی راج کپور کے ساتھ انڈین نیشنل تھیٹر میں کام کرنے کا موقع ملا بعدازاں انہوں نے دس سے زیادہ بھارتی فلموں میں کام کیا۔ 1962ء میں وہ پاکستان آگئے اور یہاں ہدایت کار اقبال یوسف کی فلم دال میں کالا سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔ ادیب نے 500 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ وہ کاسٹیوم فلموں اور فیچر فلموں میں کام کرنے میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ فیچر فلموں میں سے بیشتر میں انہوں نے ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ 26 مئی 2006ء کو اداکار ادیب وفات پاگئے۔
1931-04-19

محمد علی/اداکار ٭پاکستان کے عہد ساز اور صاحب طرز اداکار محمد علی 19 اپریل 1931ء کو رام پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید مرشد علی امام مسجد تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے پہلے ملتان اور پھر حیدرآباد میں سکونت اختیار کی۔ محمد علی نے سٹی کالج حیدرآباد سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ ان کے بڑے ارشاد علی ریڈیو پاکستان سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے محمد علی نے بھی ریڈیو پاکستان کے مختلف ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا۔ 1960ء کی دہائی کے آغاز میں محمد علی کو ہدایت کار قمر زیدی نے اپنی فلم آنکھ اور خون میں کاسٹ کیا مگر یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ 1962ء میں بطور اداکار محمدعلی پہلی فلم چراغ جلتا رہا ریلیز ہوئی۔ بطور ہیرو ان کی نمائش پذیر ہونے والی پہلی فلم شرارت تھی جس کے ہدایت کا رفیق رضوی تھے۔ اس سے قبل انہیں ہدایت کار ایس اے غفار نے مسٹر ایکس نامی جاسوسی فلم میں بطور ہیرو کاسٹ کیا تھا مگر وہ فلم کچھ تاخیر سے ریلیز ہوئی۔ محمد علی کی مقبولیت کا آغاز فلم خاموش رہو سے ہوا۔ اس کے بعد ان کی یکے بعد دیگرے لاتعداد فلمیں نمائش پذیر ہوئیں جن میں کاسٹیوم فلموں کے ساتھ ساتھ سماجی اور رومانی فلمیں بھی شامل تھیں۔ 29 ستمبر 1966ء کو فلم تم ملے پیار ملا کی تکمیل کے دوران انہوں نے اداکارہ زیبا سے شادی کرلی ۔ ان کی ازدواجی زندگی بہت کامیاب رہی۔ محمد علی اور زیبا کی مشترکہ فلموں کی تعداد 70 ہے جن میں 59 فلموں میں انہوں نے بطور ہیرو ، ہیروئن کام کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔ محمد علی نے مجموعی طور پر 268 فلموں میں کام کیا جن میں اردو فلموں کی تعداد 251 تھی ، 15 فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں جبکہ 2 فلمیں ڈبل ورژن تھیں۔انہوں نے بھارتی ہدایت کار منوج کمار کی فلم کلرک میں بھی کام کیا تھا، تاہم جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو ان کے بعض اہم مناظر بھارتی فلم سنسر بورڈ کی قینچی کی زد میں آگئے جس پرمحمد علی نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ محمد علی نے مجموعی طور پر 9نگار ایوارڈز بھی حاصل کئے تھے۔ 19 مارچ 2006ء کو محمد علی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
1931-08-10

یوسف خان ٭ پاکستان کے صف اول کے اداکار یوسف خان 10 اگست 1931ء کو مشرقی پنجاب کے شہر فیروز پور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1954ء میں ہدایت کار اشفاق ملک کی فلم ’’پرواز‘‘ سے ان کی فلمی زندگی کا آغاز ہوا۔ اس فلم میں ان کی ہیروئن کا کردار صبیحہ خانم نے ادا کیا تھا۔ ’’پرواز‘‘ کے بعد کئی برس تک یوسف خان اردو فلموں میں کام کرتے رہے جن میں مجرم، حسرت، بھروسہ، فیصلہ اور نیا دور کے نام شامل ہیں۔ 1962ء میں فلم ’’پہاڑن‘‘ سے ان کی پنجابی فلموں کا دور شروع ہوا اور جلد ہی وہ پنجابی فلموں کے بھی مصروف ترین اداکار بن گئے۔ یوسف خان کی یادگار پنجابی فلموں میں ملنگی، یارانہ، بائوجی، ضدی، غیرت میراناں، وارنٹ، ہتھکڑی، حشر نشر، اتھرا، جگنی، شریف بدمعاش، قسمت، جبرو، خطرناک، جاپانی گڈی، بت شکن، حیدر خاں، دھی رانی اور بڈھاگجر کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کی آخری فلم ’’اتھرا‘‘ تھی جو 2006ء میں نمائش پذیر ہوئی تھی۔ یوسف خان نے اپنی فن کارانہ زندگی میں لاتعداد اعزازات بھی حاصل کئے جن میں 2006ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے عطا کردہ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سرفہرست ہے۔انہوں نے فلم ضدی، جبرو اور بت شکن میں بہترین اداکاری اور فلم خدا گواہ میں نمایاں ترین فن کاری پر نگار ایوارڈ حاصل کئے۔ اس کے علاوہ انہیں 1999ء میں نگار ملینئم ایوارڈ بھی عطا کیا گیا۔ یوسف خان ایک طویل عرصہ تک فلمی فن کاروں کی تنظیم مووی آرٹسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان (ماپ) کے روح و رواں بھی رہے۔ وہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی برآمد کے شدید مخالفین میں شمار ہوتے تھے مگر جب ان کی تمام تر جدوجہد کے باوجود پاکستان میں بھارتی فلمیں نمائش پذیر ہونے لگیں تو یہی صدمہ ان کی موت کا سب سے بڑا سبب بن گیا۔ ٭20 ستمبر 2009ء کو یوسف خان لاہور میں وفات پاگئے۔ یوسف خان قصور میں آسودۂ خاک ہیں۔
1932-08-05

کمال ایرانی ٭ پاکستان کے مشہور کریکٹر ایکٹر کمال ایرانی کی تاریخ پیدائش 5 اگست 1932ءہے۔ کمال ایرانی کا اصل نام سید کمال الدین صفوی تھا اور وہ کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ سے اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا اور مجموعی طور پر 244 فلموں میں کام کیا۔ کمال ایرانی کی یادگار فلموں میں جاگ اٹھا انسان، جھک گیا آسمان، زرقا، مٹھی بھر چاول اور امرائوجان ادا کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کی آخری فلم سندھی زبان میں بننے والی فلم ’’میران جمالی‘‘ تھی جو ان کی وفات کے چند ماہ بعد 9 مارچ 1990ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ 12 ستمبر 1989ء کو کمال ایرانی وفات پاگئے۔
1937-08-08

اداکار نرالا ٭پاکستان کے معروف مزاحیہ اداکار نرالا کی تاریخ پیدائش 8 اگست 1937ء ہے۔ نرالا کا اصل نام مظفرحسین زیدی تھا اور وہ دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1960ء میں فلم ’’اور بھی غم ہیں‘‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کی دیگر فلموں میں ارمان، گھر داماد، ہم دونوں، جوکر، احسان، سمندر، دو راہا، ہیرا اور پتھر، لاڈلا اور نصیب اپنا اپنا کے نام سرفہرست ہیں۔ 9 دسمبر 1990ء کو نرالا کراچی میں وفات پاگئے۔