1879-04-01

آغا حشر کاشمیری ٭یکم اپریل 1879ء اردو کے نامور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی تاریخ پیدائش ہے۔ آغا حشر کاشمیری امرتسر کے ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے اور ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔1897ء میں انہوں نے ایک پارسی تھیٹر کے ڈرامے دیکھے تو خود بھی ڈرامہ لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور بمبئی کی الفریڈ تھیٹریکل کمپنی سے وابستہ ہوکر ڈرامہ لکھنے لگے۔ انہوں نے شیکسپیئر کے مختلف ڈراموں کے اردو ترجمے بھی کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1910ء میں انہوں نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی جس میں پیش کیے جانے والے ڈرامے وہ لکھتے بھی خود تھے اور ان کی ہدایات بھی خود دیتے تھے۔ آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامے کی تاریخ میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہیں ہندوستان کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔ آغا حشر کاشمیری کا انتقال 28 اپریل 1935ء کو لاہور میں ہوا اور وہ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
1905-05-11

اشرف صبوحی ٭ اردو کے صاحب اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا اصل نام سید ولی اشرف تھا اور وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تھا اور ان کی اردو نثر میں بھی وہی خوب صورتی نظر آتی ہے جو ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے کا خاصہ ہے۔ وہ بلاشبہ ان ادیبوں میں شامل تھے انہیں صاحب اسلوب ادیب کہا جاسکتا ہے۔ اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے شہ پاروں کے تراجم میں دھوپ چھائوں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر کے نام سرفہرست ہیں اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لئے بھی کوئی دو درجن تصانیف یادگار چھوڑیں۔ 22 اپریل 1990ء کو اشرف صبوحی کراچی میں وفات پاگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1918-11-22

بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری ٭ اردو کی مشہور ادیبہ بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری 22 نومبر 1918ء کو ہردوئی کے مقام پر پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد ظفر عمر اردو کے پہلے جاسوسی ناول نگار تسلیم کئے جاتے ہیں۔ بیگم حمیدہ اختر حسین کی شادی 1935ء میں اختر حسین رائے پوری سے ہوئی تھی جو اردو کے نامور نقاد، محقق اور ادیب تھے۔ 1992ء میں اختر حسین رائے پوری کی وفات کے بعد بیگم حمیدہ اختر حسین نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا اور اپنے بے ساختہ اور سادہ اسلوب بیان کی بنا پر اردو کی اہم اہل قلم میں شمار ہونے لگیں۔ ان کی خودنوشت سوانح عمری ہم سفر کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔ انہوں نے خاکوں کے دو مجموعے نایاب ہیں ہم اور چہرے مہرے بھی یادگار چھوڑے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ سدا بہار،کھانے پکانے کی ترکیبوں کا مجموعہ پکائو اور کھلائو اور ایک ناول وہ کون تھی؟ کے نام سے تحریر کیا۔ ان کی خود نوشت ہم سفر کا انگریزی ترجمہ My Fellow Traveller کے نام سے اشاعت پذیر ہوا، یہ ترجمہ امینہ اظفر نے کیا تھا۔ 1998ء میں اکادمی ادبیات پاکستان نے انہیں نایاب ہیں ہم پروزیراعظم ادبی انعام بھی عطا کیا تھا۔وہ کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔ 20 اپریل 2009ء کو بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کراچی میں وفات پاگئیں۔
1922-06-15

عزیز حامد مدنی ٭23 اپریل 1991ء کو اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقاداور براڈ کاسٹر عزیز حامد مدنی کراچی میں وفات پاگئے۔ عزیز حامد مدنی 15جون 1922ء کو رائے پور (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد نے 1898ء میں علی گڑھ سے گریجویشن کیا تھا اور وہ علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد تھے۔ عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا۔ بعدازاں وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے اور پھر اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ عزیز حامد مدنی کا شمار اردو کے جدید ترین اور اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ ایک جداگانہ اسلوب کے مالک تھے اور ان کے موضوعات کی انفرادیت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ان کے شعری مجموعے چشم نگراں، دشت امکاں اور نخل گماں کے نام سے اور ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔ وہ کراچی میں لیاقت آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو: وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
1927-03-08

11جون 2004ء:ضمیر نیازی کی وفات ٭11 جون 2004ء کو پاکستان کے نامور صحافی، مصنف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی کراچی میں وفات پاگئے اور ابو الحسن اصفہانی روڈ پر واقع قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ضمیر نیازی کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا اور وہ 8 مارچ 1927ء کو بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1942ء میں ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور صحافت کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے جہاں انہوں نے روزنامہ ’’ڈان‘‘ سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ 1965ء میں وہ روزنامہ ’’بزنس ریکارڈر‘‘ سے منسلک ہوئے اور پھر اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی اخبار سے وابستہ رہے۔ ضمیر نیازی نے 1986ء میں Press in Chains کے نام سے پاکستانی صحافت پر گزرنے والی پابندیوں کی داستان تحریر کی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شامل ہوئے۔ اس کے بعد جناب ضمیر نیازی نے 1992ء میں Press Under Siegeاور 1994ء میں Web of Censorship کے نام سے مزید دو کتابیں تحریر کیں جن میں صحافت پر حکومتی اور مختلف تنظیموں کے دبائو اور پاکستان نے سنسر شپ کی تاریخ رقم کی گئی تھی۔ ان کی دیگر تصانیف میں باغبان صحرا ، انگلیاں فگار اپنی، حکایات خونچکاں اور پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے ردعمل میں لکھی گئی تحریروں کا انتخاب ’’زمین کا نوحہ‘‘ شامل ہیں۔ 1994ء حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا جسے اگلے برس کراچی کے 6 اخبارات پر پابندی عائد ہونے کے بعد انہوں نے احتجاجاً واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کرنے کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے اسے قبول کرنے کے لئے گورنر ہائوس جانے سے انکار کردیا تھا۔
1935-04-28

آغا حشر کاشمیری ٭یکم اپریل 1879ء اردو کے نامور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی تاریخ پیدائش ہے۔ آغا حشر کاشمیری امرتسر کے ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے اور ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔1897ء میں انہوں نے ایک پارسی تھیٹر کے ڈرامے دیکھے تو خود بھی ڈرامہ لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور بمبئی کی الفریڈ تھیٹریکل کمپنی سے وابستہ ہوکر ڈرامہ لکھنے لگے۔ انہوں نے شیکسپیئر کے مختلف ڈراموں کے اردو ترجمے بھی کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1910ء میں انہوں نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی جس میں پیش کیے جانے والے ڈرامے وہ لکھتے بھی خود تھے اور ان کی ہدایات بھی خود دیتے تھے۔ آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامے کی تاریخ میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہیں ہندوستان کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔ آغا حشر کاشمیری کا انتقال 28 اپریل 1935ء کو لاہور میں ہوا اور وہ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
1951-04-21

جمال احسانی /شاعر ٭ اردو کے ممتاز غزل گو شاعر جمال احسانی 21 اپریل 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے تھے۔ 1970ء کی دہائی میں انہوں نے شاعری کا آغاز کیا اور بہت جلد اردو کے اہم غزل گو شعرا میں شمار ہونے لگے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ ان تینوں مجموعوں پر مشتمل ان کی کلیات، کلیات جمال کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ 10 فروری 1998ء کو اردو کے ممتاز غزل گو شاعر جمال احسانی کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں گلستان جوہر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو: چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
1970-04-19

سید امتیاز علی تاج ٭18 اور 19 اپریل 1970ء کی درمیانی رات دو نامعلوم نقاب پوش حملہ آوروں نے‘ جو سید امتیاز علی تاج کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہوئے تھے‘ چاقوئوں کے پے در پے وار کرکے انہیں شدید زخمی کردیا جو ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اگلے دن خالق حقیقی سے جاملے۔ سید امتیاز علی تاج کا شمار اردو کے صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے اور ان کا ڈرامہ ’’انار کلی‘‘ اردو کے کلاسکس میں گنا جاتا ہے۔ امتیاز علی تاج 13 اکتوبر 1900ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے‘ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ دور طالب علمی ہی میں انہوں نے انگریزی کے کئی معرکہ آرا ڈراموں کو اردو میں منتقل کیا اور انہیں اسٹیج کیا۔ 1925ء میں ان کا معرکہ آرا ڈرامہ انار کلی اشاعت پذیر ہواجو شائع ہوتے ہی کلاسک کا درجہ اختیار کرگیا۔ امتیاز علی تاج نے ایک بھرپور ادبی زندگی گزاری۔ انہوں نے فن ڈرامہ نگاری پر تنقیدی مضامین لکھے‘ لاتعداد ڈرامے اردو میں منتقل کیے‘ اردو کے کلاسیکی ڈراموں کے متون کو مرتب اور شائع کیا ‘ کئی فلموں کی کہانیاں لکھیں اور پاکستان آرٹس کونسل‘ لاہور کے سیکرٹری اور مجلس ترقی ادب لاہور کے ناظم رہے۔حکومت پاکستان نے ان کی اعلیٰ ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔
1990-04-22

اشرف صبوحی ٭ اردو کے صاحب اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا اصل نام سید ولی اشرف تھا اور وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تھا اور ان کی اردو نثر میں بھی وہی خوب صورتی نظر آتی ہے جو ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے کا خاصہ ہے۔ وہ بلاشبہ ان ادیبوں میں شامل تھے انہیں صاحب اسلوب ادیب کہا جاسکتا ہے۔ اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے شہ پاروں کے تراجم میں دھوپ چھائوں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر کے نام سرفہرست ہیں اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لئے بھی کوئی دو درجن تصانیف یادگار چھوڑیں۔ 22 اپریل 1990ء کو اشرف صبوحی کراچی میں وفات پاگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1991-04-23

عزیز حامد مدنی ٭23 اپریل 1991ء کو اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقاداور براڈ کاسٹر عزیز حامد مدنی کراچی میں وفات پاگئے۔ عزیز حامد مدنی 15جون 1922ء کو رائے پور (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد نے 1898ء میں علی گڑھ سے گریجویشن کیا تھا اور وہ علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد تھے۔ عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا۔ بعدازاں وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے اور پھر اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ عزیز حامد مدنی کا شمار اردو کے جدید ترین اور اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ ایک جداگانہ اسلوب کے مالک تھے اور ان کے موضوعات کی انفرادیت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ان کے شعری مجموعے چشم نگراں، دشت امکاں اور نخل گماں کے نام سے اور ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔ وہ کراچی میں لیاقت آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو: وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے