> <

1926-09-21
6542 Views
ملکہ ترنم نورجہاں ٭ پاکستان کی نامور اداکارہ اور گلوکار ملکہ ترنم نورجہاں کی تاریخ پیدائش 21 ستمبر1926ء ہے۔ ملکہ ترنم نورجہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا اور محلہ کوٹ مراد خان، قصور میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنی فنی زندگی کا آغازبطور چائلڈ اسٹار  1935ء میں کلکتہ میں بننے والی فلم ’’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘‘ سے کیا۔ چند مزید فلموں میں کام کرنے کے بعد 1938ء میں وہ لاہور واپس آگئیں جہاں انہوں نے فلم ساز دل سکھ پنجولی اور ہدایت کار برکت مہرا کی فلم ’’گل بکائولی‘‘ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ یہی وہ فلم تھی جس سے بطور گلوکارہ بھی ان کی شہرت اور مقبولیت کا آغاز ہوا، اس کے بعد انہوں نے فلم ’’یملا جٹ‘‘ اور ’’چوہدری‘‘ میں کام کیا۔ 1941ء میں موسیقار غلام حیدر نے انہیں اپنی فلم ’’خزانچی‘‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا۔ 1941ء میں ہی بمبئی میں بننے والی فلم ’’خاندان‘‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے ان کی محبت پروان چڑھی اور دونوں نے شادی کرلی۔ قیام پاکستان سے پہلے ان کی دیگر معروف فلموں میں،دوست، لال حویلی، بڑی ماں، نادان، نوکر، زینت، انمول گھڑی اور جگنو کے نام سرفہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے فلم ’’چن وے‘‘ سے اپنے پاکستانی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کی ہدایات بھی انہوں نے دی تھیں۔ بطور اداکارہ ان کی دیگر فلموں میں گلنار، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کرلیا۔ ایک ریکارڈ کے مطابق انہوں نے 995 فلموں کے لئے نغمات ریکارڈ کروائے جن میں آخری فلم ’’گبھرو پنجاب دا‘‘ تھی جو 2000ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ’’نشان امتیاز‘‘ عطا کیا تھا جبکہ ان کے مداحین نے انہیں ملکہ ترنم کا خطاب عطا کیا تھا۔ 23 دسمبر 2000ء کو ملکہ ترنم نورجہاں دنیا سے رخصت ہوئیں اور کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں۔
1927-07-18
4946 Views
مہدی حسن ٭ 13 جون 2012 پاکستان کے عظیم گائیک مہدی حسن کی تاریخ وفات ہے۔ مہدی حسن 18 جولائی  1927کوراجستھان کے ایک گاؤں لُونا میں پیدا ہوئے۔ اْن کے والد اور چچا دْھرپد گائیکی کے ماہر تھے۔ انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی۔ مہدی حسن پچپن سے ہی گلوکاری کے اسرار و رمُوز سے آشنا تھے مگر اس سفر کا باقاعدہ آغاز 1952ء  میں ریڈیو پاکستان کے کراچی سٹوڈیو سے ہوا۔ اس وقت سے اپنے انتقال تک انہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ فلمی، غیر فلمی گیت اور غزلیں گا ئیں ۔ 1956ء میں ایک طویل جدو جہد کے بعد مہدی حسن کو فلمی گلوکار بننے کا موقع ملا۔ خان صاحب مہدی حسن نے کل 441 فلموں کے لیے گانے گائے اور گیتوں کی تعداد 626 ہے۔ فلموں میں سے اردو فلموں کی تعداد 366 ہے جن میں 541 گیت گائے جب کہ 74 پنجابی فلموں میں 82 گیت گائے۔ انہوں نے 1962ء سے 1989ء تک 28 سال تک مسلسل فلموں کے لیے گائیکی کی تھی۔فلمی گیتوں میں ان کے سو سے زیادہ گانے اداکار محمد علی پر فلمائے گئے۔ اس کے علاوہ مہدی حسن خان صاحب ایک فلم ’’شریک حیات‘‘ 1968ء میں پردہ سیمیں پر بھی نظر آئے۔ مہدی حسن کو بے شمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔  جن میں 9 نگار ایوارڈ،تمغہ امتیاز، صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز شامل تھے۔ 1979 ء میں انہوں نے جالندھر (انڈیا) میں کے ایل سہگل ایوارڈ حاصل کیا۔  1983ء میں نیپال میں گورکھا دکشینا باہو ایوارڈ حاصل کیا اور جولائی 2001 ء میں پاکستان ٹیلی ویژن نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا ۔ لیکن مہدی حسن کے لیے سب سے بڑا اعزاز وہ بے پناہ مقبولیت اور محبت تھی جو انہیں عوام کے دربار سے ملی۔ پاک و ہند سے باہر بھی جہاں جہاں اُردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ آباد ہیں، مہدی حسن کی پذیرائی ہوتی رہی ۔بھارت میں اُن کے احترام کا جو عالم تھا وہ لتا منگیشکر کے اس خراجِ تحسین سے ظاہرہے کہ مہدی حسن کے گلے میں تو بھگوان بولتے ہیں۔
1928-03-01
8557 Views
 محمدعالم لوہار / لوک فنکار *عالم لوہار یکم مارچ 1928ءکو موضع آچھ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ان کی خوش الحانی کی وجہ سے انہیں قاری بنانا چاہتے تھے مگر ان کا اپنا رجحان لوک داستانیں گانے کی طرف تھا چنانچہ وہ اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے اپنا گھر چھوڑ کر تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے اور نہایت کم عمری میں بہت مقبول ہوگئے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی وژن سے بھی اپنے فن کا جادو جگایا اور پاکستان کے مقبول ترین لوک گلوکاروں میں شمار ہونے لگے۔ ان کے فن کے قدردانوں میں صدر ایوب خان بھی شامل تھے۔ 3 جولائی 1979ء کو محمد عالم لوہار مانگا منڈی کے قریب ٹریفک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔
1940-01-14
5415 Views
لوک گلوکار محمد یوسف ٭محمد یوسف 14 جنوری 1940ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے والد استاد لونگ خان بھی سندھ کے معروف لوک گلوکار تھے۔ ان کے خاندان میں کئی اور معروف موسیقار بھی پیدا ہوئے جن میں استاد زوار بسنت کا نام سرفہرست تھا۔ محمد یوسف نے موسیقی کی تربیت گوالیار گھرانے کے مشہور موسیقار استاد امید علی خان اوراستاد منظور علی خان سے حاصل کی۔ وہ سندھی غزل اور کافی گانے پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ وہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام گانے کے حوالے سے بھی بے حد معروف تھے۔ محمد یوسف نے اپنی گائیکی پر متعدد اعزازات حاصل کئے تھے جن میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سرفہرست تھا۔ 14 فروری 1997ء کو سندھ کے معروف لوک گلوکار محمد یوسف کوٹری ضلع دادومیں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
1942-07-27
5161 Views
عزیز میاں قوال ٭27 جولائی 1942ء پاکستان کے نامور قوال عزیز میاں کی تاریخ پیدائش ہے۔ عزیز میاں یوپی کے شہر بلند شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ قوالی گانے میں اپنا ایک منفرد انداز رکھتے تھے۔ ان کی مشہور قوالیوں میں … میں شرابی میں شرابی… تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے…اللہ ہی جانے کون بشر ہے …سرفہرست ہیں۔ مزید برآں ان کی ایک نعتیہ قوالی ’’یا نبی یا نبی‘‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ عزیز میاں 6 دسمبر 2000ء کو ایران کے شہر تہران میں وفات پاگئے اور ملتان میں احاطہ مزار بابا ناظر حسین (شہتوتاں والی سرکار) سیتل ماڑی میں آسودۂ خاک ہوئے۔
1942-11-09
7664 Views
گلوکارہ مالا ٭پاکستان کی مقبول گلوکارہ مالا بیگم 9نومبر 1942ء کوامرتسر میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام نسیم بیگم تھا مگر چونکہ اس نام کی گلوکارہ پہلے سے فلمی صنعت میں موجود تھیں اس لیے انور کمال پاشا نے انہیں ’’مالا‘‘ کا نام دیا۔ مالا نے اپنا پہلا فلمی نغمہ انور کمال پاشا کے شاگرد دلشاد ملک کی فلم سورج مکھی کے لئے گایا جس کے موسیقار ماسٹر عبداللہ تھے۔ 1962ء میں مالا نے موسیقار ماسٹر عنایت حسین کی فلم عشق پر زور نہیں کے لئے ایک گانا گایا جس کے بول تھے ’’دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘‘ جسے مالا کی خوبصورت آواز اور سائیں اختر حسین کے دلکش الاپ نے ایک غیرفانی نغمے کی شکل دے دی۔ اس نغمے پر مالا نے اس سال کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس کے بعد مالا پر خوش قسمتی کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ 1965ء میں انہوں نے فلم نائیلہ کے نغمے جا اور محبت کرپگلی پر دوسرا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ انہوں نے سو سے زیادہ فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ انہیں المیہ اور طربیہ ہر طرح کے گانے پر عبور تھا۔ 6 مارچ 1990ء کو پاکستان کی یہ مقبول گلوکارہ اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔          
1956-06-29
2310 Views
مہدی حسن ٭29 جون 1956ء کا دن پاکستان کی فلمی موسیقی کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ وہ دن تھا جب فلم ’’شکار‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں موسیقار اصغر علی محمد حسین نے ایک ایسے فنکار کو متعارف کروایا تھا جس کی آواز کا جادو آج بھی سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ فنکار مہدی حسن تھے جو اس وقت صرف غزل کے گائیک کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور ریڈیو پاکستان سے خالص کلاسیکی انداز میں ان کی غزلیں سن کر کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اتنی خوبصورتی سے ہلکے پھلکے رومانی گیت بھی گاسکتے ہیں۔ فلم شکار کے فلم ساز حسن اے بیگ محمد تھے اور اس کی ہدایات رفیق انور نے دی تھیں۔ فلم شکار میں مہدی حسن نے جو گانے گائے ان میںیزدانی جالندھری کا لکھا ہوا نغمہ : میرے خیال و خواب کی دنیا لئے ہوئے پھر آ گیا کوئی رخ زیبا لئے ہوئے اور’’ نظر ملتے ہی دل کی بات کا چرچا نہ ہوجائے ‘‘شامل تھے۔
1965-04-03
5232 Views
نازیہ حسن ٭3 اپریل1965ء پاکستان کی مشہور گلوکارہ نازیہ حسن کی تاریخ پیدائش ہے۔ نازیہ حسن کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور پروگرام سنگ سنگ چلیں سے کیا جس میں ان کے بھائی زوہیب حسن بھی ان کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔ ان دونوں بھائی بہن نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔ پاکستان پاپ موسیقی کو روشناس کرانے کا سہرا بھی انہی بھائی بہن کو جاتا ہے۔ عالمی سطح پر نازیہ حسن کو اس وقت شہرت ملی جب انہوں نے بھارتی موسیقار بدو کی موسیقی میں فلم قربانی کا مشہور نغمہ آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے ریکارڈ کروایا۔ اس نغمے نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور اس پر انہیں بھارت کا مشہور فلم فیئر ایوارڈ بھی عطا ہوا۔ وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شخصیت تھیں۔ فلم قربانی کے اس نغمے کی مقبولیت کے بعد نازیہ اور زوہیب حسن کا مشہور البم ڈسکو دیوانے ریلیز ہوا۔ اس کیسٹ نے بھی فروخت اور مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ نازیہ حسن اور زوہیب حسن نے پاکستان میں پاپ موسیقی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اور صاف ستھرا انداز اپناتے ہوئے عالمی شہرت حاصل کی۔ دونوں بہن بھائی نے جب جدید انداز میں ٹیلی وژن اور اسٹیج پر پرفارم کرنے شروع کیا تو ان پر اعتراضات کی بھرمار بھی ہوئی لیکن دونوں سب اعتراضات سے بے نیاز آگے بڑھتے رہے۔ نازیہ حسن اور زوہیب حسن کے دیگر مقبول کیسٹوں میں بوم بوم اور ینگ ترنگ کے نام سرفہرست ہیں۔ 1995ء میں نازیہ حسن کی شادی مرزا اشتیاق بیگ سے ہوئی، ان کے ایک بیٹا بھی ہوا۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد اطلاع ملی کہ نازیہ حسن کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ اس کے بعد ان کے اپنے شوہر اشتیاق بیگ سے اختلافات کی خبریں بھی منظرعام پر آئیں۔ نازیہ حسن 13 اگست 2000ء کو لندن میں وفات پاگئیں۔وہ نارتھ لندن کے مسلم قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔  
1967-12-30
4942 Views
کوثر پروین ٭30 دسمبر 1967ء کو پاکستان کی نامور گلوکارہ کوثر پروین وفات پاگئیں۔ کوثر پروین اداکارہ آشا پوسلے اور رانی کرن کی چھوٹی بہن اور معروف موسیقار اختر حسین کی شریک حیات تھیں۔ انہوں نے پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں لاتعداد فلموں کو اپنی آواز سے یادگار بنایا۔ خصوصاً 1954ء میں سید عطا اللہ شاہ ہاشمی کی بنائی ہوئی فلم نوکر میں سورن لتا پر فلم بند ہونے والی مشہور لوری میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جائوں، کوثر پروین کی شناخت بن گئی۔ کوثر پروین کے دیگر مقبول نغموں میں کب تک رہوگے اجی دور دور ہم سے(فلم: چھوٹی بیگم)، اومینا، نہ جانے کیا ہوگیا (فلم: قاتل)، ہر قدم پہ ستم (فلم: حمیدہ)، باربار ترسے مورے نیناں (فلم:وعدہ) اور ستمگر مجھے بے وفا جانتا ہے (فلم: سات لاکھ) کے علاوہ سلیم رضا کے ساتھ گائے ہوئے متعدد دو گانے شامل ہیں۔  
1971-09-29
3656 Views
نسیم بیگم ٭29 ستمبر 1971ء کو پاکستان کی مقبول فلمی گلوکارہ نسیم بیگم انتقال کرگئیں۔ نسیم بیگم نے 1936ء میں امرتسر کی ایک مغنیہ بدھاں کے گھر جنم لیا تھا تاہم انہیں موسیقی اور راگ رنگ کے بنیادی اصولوں اور تقاضوں سے ممتاز مغنیہ اور اداکارہ مختار بیگم نے آشنا کیا جو آغا حشر کاشمیری کی شریک حیات تھیں۔ نسیم بیگم نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔ پھر مشہور فلمی موسیقار شہر یار نے انہیں اپنی فلم بے گناہ کے ایک نغمے ’’نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار‘‘ کے ذریعے فلمی دنیا سے روشناس کروایا۔ یہ نغمہ بے پناہ مقبول ہوا اور یوں نسیم بیگم پر فلمی دنیا کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ نسیم بیگم اپنے زمانے کی مقبول ترین گلوکارہ تھیں۔ جس کا اندازہ انہیں ملنے والے نگار ایوارڈز سے ہوسکتا ہے۔ نگار ایوارڈز میں بہترین گلوکارہ کے ایوارڈ کا آغاز 1959ء میں ریلیز ہونے والی فلموں سے ہوا تھا۔ اس برس تو یہ ایوارڈ نور جہاں نے حاصل کیا مگر اس کے بعد اگلے پانچ برس میں چار نگار ایوارڈ نسیم بیگم کے حصے میں آئے صرف ایک ایوارڈ مالا کے حصے میں آیا۔ نسیم بیگم نے یہ نگار ایوارڈ جن نغمات پر حاصل کیے ان میں شام ڈھلے کا نغمہ سوبار چمن مہکا‘ فلم شہید کا نغمہ اس بے وفا کا شہر ہے‘ فلم باجی کا نغمہ چندا توری چاندنی میں اور فلم لٹیرا کا نغمہ نگاہیں ہوگئیں پرنم شامل تھے۔ نسیم بیگم کے دیگر مقبول نغمات میں سہیلی کے نغمات ہم بھول گئے ہر بات‘ ہم نے جو پھول چُنے اور مکھڑے پہ سہرا ڈالے‘ آجائو آنے والے‘ فلم اولاد کا نغمہ نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘ اک تیرا سہارا کا اے دل کسی کی یاد میں‘ فلم شہید کا میری نظریں ہیں تلوار‘ مادر وطن کا نغمہ اے راہ حق کے شہیدو‘ کرتار سنگھ کا نغمہ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘ حویلی کا نغمہ میرا بچھڑا بلم گھر آگیا‘ جادوگر کا نغمہ رنگ محفل ہے اور نہ تنہائی‘ زرقا کا نغمہ میں پھول بیچنے آئی‘ چن پتر کا نغمہ سانوں وی لے چل نال وے اور دروازہ کا نغمہ چھپ گئے ستارے ندیا کنارے سرفہرست ہیں۔ نسیم بیگم نے سلیم رضا‘ منیر حسین‘ مہدی حسن‘ احمد رشدی اور مسعود رانا کے ساتھ متعدد دوگانے بھی گائے جو سننے والوں میں بے حد مقبول ہوئے۔
UP