1980-03-23

عظمیٰ گیلانی پاکستان کی مشہور اداکارہ عظمیٰ گیلانی کا تعلق دہلی کے ایک ذی علم گھرانے سے ہے تاہم ان کی پیدائش میرٹھ کی ہے۔ عظمیٰ گیلانی کی فنی زندگی کا آغاز اشفاق احمد کی سیریز قلعہ کہانی کے کھیل ’’پاداش‘‘ سے ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے لاتعداد سیریلز، سیریز اور انفرادی ڈراموں میں کام کیا جن میں نشیمن، ایک محبت سو افسانے ، الف لیلہ، وارث، سمندر، دہلیز، دھوپ جلی ، پناہ ، امربیل، تجھ پہ قربان اور خالی آنکھیں کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ پاکستان ٹیلی وژن کی پہلی اداکارہ تھیں جنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انھیں 23 مارچ 1980ء کو ملا۔ عظمیٰ گیلانی کے افسانوں کا مجموعہ ع عورت، م مرد اور سوانح عمری ’’جو ہم پہ گزری‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے ، ان دنوں وہ آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔
1981-08-14

روحی بانو پاکستان کی نامور اداکارہ روحی بانو 10 اگست 1951ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ نامور طبلہ نواز اللہ رکھا خان کی بیٹی اور ذاکر حسین کی سوتیلی بہن ہیں۔ کرن کہانی، زرد گلاب، دروازہ اور دیگر بے شمار کلاسک ڈراموں میں یادگار کردار ادا کرکے ناظرین کے دل جیتنے والی روحی بانو کا شمار اُن آرٹسٹوں میں ہوتا ہے جنھوں نے پاکستان میں ٹی وی کو جنم لیتے اور بنتے دیکھا۔ انہوں نے طلعت حسین، راحت کاظمی اور دوسرے ٹاپ ہیروز کے ساتھ بہت سے ہٹ ڈرامے ٹیلی وژن کو دئیے۔ انھوں نے چند فلموں میں بھی کام کیا لیکن وہ خود کو اس ماحول سے ہم آہنگ نہ کرسکیں۔ حکومت پاکستان نے روحی بانو کو 14 اگست 1981ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ اس کے علاوہ بھی وہ متعدد ایوارڈز حاصل کرچکی ہیں۔ 2005ء میں ان کے 20 سالہ اکلوتے فرزند علی کو کسی نے پراسرار حالت میں گولی مارکر ہلاک کردیا جس کے بعد وہ ذہنی مریض بن گئیں۔ اب روحی بانو تنہا اور اداس لاہور میں اپنے گھر میں کسمپرسی کے عالم میں زندگی کے دن گزار رہی ہیں۔
1983-08-14

عرش منیر ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کی مشہور صداکارہ اور اداکارہ عرش منیر کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ ان کے شوہر شوکت تھانوی اردو کے معروف ادیب تھے اور آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ تھے۔ انہی کی تحریک پر عرش منیر نے آل انڈیا ریڈیو سے صداکاری کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئیں اور ریڈیو پاکستان سے بطور اسٹاف آرٹسٹ وابستہ ہوگئیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کے آغاز کے بعد انہوں نے متعدد ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔14 اگست 1983ء کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ عرش منیر8 ستمبر 1998ء کو کراچی میں وفات پاگئیں اور سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں
1984-08-14

بیگم خورشید مرزا پاکستان ٹیلی وژن کی ممتاز فنکارہ (اور بھارت کی سابق فلمی اداکارہ) بیگم خورشید مرزا 4 مارچ 1918ء کو پیدا ہوئی تھیں ان کا اصل نام خورشید جہاں تھا اور ان کا تعلق علی گڑھ کے ایک ممتاز گھرانے سے تھا۔ ان کے والد شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی تھی اور ان کی بڑی بہن ڈاکٹر رشید جہاں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بانیوں میں شامل تھیں۔ ان کی دیگر بہنیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ خورشید جہاں کی شادی، سترہ برس کی عمر میں ایک پولیس آفیسر اکبر حسین مرزا سے ہوئی۔ خورشید جہاں کے بھائی محسن عبداللہ بمبئی میں دیویکارانی اور ہمانسورائے کے فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ ان کے توسط سے جب دیویکا رانی کی ملاقات خورشید جہاں سے ہوئی تو انہوں نے انہیں اپنی فلموں میں اداکاری کی دعوت دی۔ یوں خورشید جہاں نے رینوکا دیوی کے نام سے فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ ان کی مشہور فلموں میں جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی شامل تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد خورشید جہاں، جو اب بیگم خورشید مرزا بن چکی تھیں پاکستان آگئیں اور انہوں نے یہاں ریڈیو اور ٹیلی وژن کے متعدد ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور ریڈیو کے کئی پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی۔ ٹیلی وژن پر ان کی مشہور سیریلز میں کرن کہانی، زیر زبر پیش،انکل عرفی، پرچھائیں، رومی، افشاں اور انا کے نام سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرامہ ماسی شربتے میں بھی ان کا کردار بڑا یادگار سمجھا جاتا ہے۔ 14 اگست1984ء کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ بیگم خورشید مرز۱ 8 فروری 1989ء کو لاہور میں وفات پاگئیں اور میاں میر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں۔ بیگم خورشید مرزا کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے شائع ہوچکی ہے جو ان کی صاحبزادی لبنیٰ کاظم نے تحریر کی ہے۔
1986-08-14

صبیحہ خانم پاکستان کی نامور فلمی اداکارہ صبیحہ خانم کا اصل نام مختار بیگم ہے اور وہ 16 اکتوبر1936ء کو گجرات میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد کا نام محمد علی ماہیا تھا جن کا تعلق دہلی سے تھا۔ والدہ اقبال بیگم (بالو) امرتسر سے تھیں۔ 1948ء میں سیالکوٹ میں ایک ثقافتی وفد نے ایک سینما کا دورہ کیا۔ اس وفد میں مختار بیگم بھی شامل تھیں۔ انہوں نے وہاں ایک پنجابی گیت گایا ’’کتھے گیا پردیسیا وے‘‘ یہ فلم ’’سسی پنوں ‘‘کا گیت تھا۔ ان کی اس کارکردگی کو خاصی پذیرائی ملی۔ جلد ہی محمد علی ماہیا نے اپنی بیٹی کا تعارف اس وقت کے معروف سٹیج ڈرامہ رائٹراور شاعر نفیس خلیلی سے کرایا جنھوں نے انہیں ایک ڈرامے ’’بت شکن‘‘ میں ایک کردار کی پیشکش کی۔ یہ نفیس خلیلی ہی تھے جنہوں نے مختار بیگم کا نام صبیحہ خانم رکھا۔ نفیس خلیلی کی درخواست پر مسعود پرویز نے انہیں اپنی فلم ’’بیلی‘‘ میں کاسٹ کرلیا اور یوں ’’بیلی‘‘ صبیحہ خانم کی پہلی فلم ثابت ہوئی جو 1948ء میں ریلیز ہوئی۔ ’’بیلی‘‘ مسعود پرویز کی بطور ہدایتکار پہلی فلم تھی‘ اس کی کاسٹ میںسنتوش کمار، صبیحہ خانم اور شاہینہ شامل تھیں۔ اس کے بعد صبیحہ نے انور کمال پاشا کی سلور جوبلی فلم دو آنسو میں نوری کا کردار ادا کیا۔ پھر اگلی فلم ’’آغوش‘‘ میں بھی انہوں نے لاجواب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اس فلم کی ہدایات مرتضیٰ جیلانی نے دیں اور فلم کی کاسٹ میں صبیحہ ، سنتوش اور گلشن آراء شامل تھے۔ 1953ء میں انور کمال پاشا کی فلم غلام میں بھی ان کی اداکاری نے سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ اس کے بعد جس فلم میں صبیحہ خانم کی اداکاری کا نوٹس لیا گیا اس کا نام گمنام تھا۔ اس فلم کی ہدایات بھی انور کمال پاشا نے دی تھیں اوراس کی کاسٹ میں سیما، سدھیر اور صبیحہ خانم شامل تھے۔ ’’دلا بھٹی‘‘ میں بھی ان کا کردار ناقابل فراموش تھا بلکہ اس کردار کو ان کا امر کردار کہا جاتا ہے۔ صبیحہ خانم کو اپنے زمانے کے تمام مشہور اداکارائوں کے مقابل کاسٹ کیا گیا لیکن سنتوش کمار کے ساتھ ان کی فلموں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی معروف فلموں میں وعدہ، پاسبان، شیخ چلی، سات لاکھ، گمنام، دیوانہ، آس پاس، سسی، سوہنی، چھوٹی بیگم، داتا، حاتم، آج کل، مکھڑا، عشق لیلیٰ، دل میں تو، ایاز، محفل، پرواز، طوفان، موسیقار، سرفروش اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔ صبیحہ خانم نے متعدد فلموں میں کیریکٹر ایکٹرس کی حیثیت سے بھی انمٹ نقوش ثبت کیے جن میں کنیز، دیور بھابی، پاک دامن، انجمن، محبت، تہذیب، اک گناہ اور سہی سر فہرست ہیں۔ صبیحہ خانم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستانی سلور سکرین کی پہلی خاتون تھیں جنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ملا۔ یہ اعزاز انھیں 14 اگست 1986ء کو عطا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں بہترین اداکارہ کی حیثیت سے کئی ایوارڈ ملے۔ صبیحہ خانم نے جوا ایوارڈ حاصل کیے ان کی تفصیل ذیل میں بیان کی جا رہی ہے۔ سات لاکھ، شکوہ اور دیوربھابی میں بہترین اداکارہ، اک گناہ اور سہی میں سپیشل ایوارڈ اورسنگدل میں بہترین معاون اداکارہ کے ایوارڈ شامل تھے۔ صبیحہ خانم نے اپنے دور کے مشہوراداکار سنتوش کمار سے شادی کی تھی۔
1989-08-14

بشریٰ انصاری ٹیلی وژن کی نامور اداکارہ بشریٰ انصاری 15 مئی 1954ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ معروف صحافی، دانشور اور فلم ڈائریکٹر احمد بشیر کی صاحبزادی ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور کے لیڈی گریفن اسکول میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے لاہور کالج فور ویمن یونیورسٹی اور بعد میں راولپنڈی کے وقارالنساء کالج سے 1977ء میں بی اے کی سند حاصل کی۔ تاہم اس پورے عرصے میں بشریٰ نے موسیقی کا ساتھ نہ چھوڑا اور انہوں نے اس کی باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی۔ انہوں نے نو سال کی عمر سے ہی ٹی وی کے مختلف موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیا اور بچوں کے موسیقی کے پروگرام کلیوں کی مالا میں کئی گانے گائے۔ بشریٰ انصاری نے متعدد ڈرامہ سیریلز ، انفرادی ڈراموں اور اسٹیج پروگراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں آنگن ٹیڑھا، شو ٹائم، شوشا، رنگ ترنگ اور ایمرجنسی وارڈ کے نام سر فہرست ہیں۔ انھوں نے لاتعداد اعززات اور ایوارڈز بھی حاصل کیے جن میں 14 اگست 1989ء کو عطا ہونے والا صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سر فہرست ہے۔
1989-08-14

مسرت نذیر پاکستان کی نامور اداکارہ اور گلوکارہ مسرت نذیر 13اکتوبر 1940ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے انٹر میڈیٹ کا امتحان کینئرڈ کالج سے پاس کیا۔ مسرت نذیر نے موسیقی میں گہری دلچسپی ہونے کے باعث سب سے پہلے ریڈیو پاکستان کے لیے گانا شروع کیا تھا۔ اسی دوران ہدایت کار انور کمال پاشا نے انہیں اداکاری کی تجویز پیش کی اور مسرت کے والدسے مل کر ان سے مسرت کے فلموں میں کام کرنے کی اجازت بھی لی۔ 1955ء میں مسرت نذیر نے انور کمال پاشا کی فلم ’’قاتل‘‘ میں پہلی بار کام کیا۔ اس فلم میں ان کا کردار جزوی لیکن مضبوط تھا۔ اس کے بعد مسرت نذیر نے شیخ لطیف کی فلم ’’پتن‘‘ میں پہلی بار مرکزی کردار ادا کیا جس کے ہدایت کار لقمان تھے۔ اس فلم میں انہوں نے سنتوش کمار کے مقابل اہم کردار ادا کیا۔ ’’پتن‘‘ نے مسرت کے لیے فلم انڈسٹری کے دروازے کھول دئیے۔ ان کی دو فلموں ’’یکے والی‘‘ اور ’’پاٹے خان‘‘ نے فلم انڈسٹری میں دھوم مچا دی تھی۔ مسرت کی مقبول ترین فلموں میں کرتار سنگھ، یار بیلی، نوکری، آنکھ کا نشہ، باپ کا گناہ، قسمت، نیا زمانہ، جٹی، وطن، رضا، سولہ آنے، گڈا گڈی، لکن مٹی ، سہارا، رخسانہ، ٹھنڈی سڑک، پلکاں، سہتی، سنہرے سپنے، مرزا صاحباں، جائیداد، جھومر، عشق پر زورنہیں، چھوٹے سرکار، گلفام، بہادر، باغی، جان بہار، ماہی منڈا شامل ہیں۔ مسرت نذیر نے 33 اردو اور 14 پنجابی فلموں میں کام کیا۔ مسرت نذیر اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری میں بھی نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ان کے گائے ہوئے کئی لوک گیت اور غزلیں بہت مقبول ہیں۔ جن میں میرا لونگ گواچا، چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ، اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو، لٹھے دی چادر ، چٹا ککڑ بنیرے تے سر فہرست ہیں۔ مسرت نذیر کو ان کے فلمی کیریئر میں مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا۔ جن میں 1958 ء میں فلم ’’زہر عشق‘‘ 1959ء کی فلم ’’جھومر‘‘ اور 1961ء کی فلم ’’شہید‘‘ میں بہترین اداکاری پر ملنے والا نگار ایوارڈ اور14 اگست 1989ء کو حکومت پاکستان کی جانب سے ملنے والا صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سرفہرست ہے۔ مسرت نذیرنے ڈاکٹر ارشد مجید سے شادی کی تھی اوروہ 1960ء کی دہائی سے ٹورنٹو، کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔
1994-08-14

ناہید صدیقی پاکستان کی نامور کتھک رقاصہ ناہید صدیقی 1949میں پیدا ہوئیں۔ مشہور اداکارہ طلعت صدیقی کی صاحبزادی اور عارفہ صدیقی کی بڑی بہن ہیں۔ لاہور کالج آف ہوم اکنامکس سے گریجویشن کیا اور مہاراج غلام حسین کتھک اور پنڈت برجو مہاراج سے کلاسیکی رقص کی تربیت حاصل کرنے کے بعد پی آئی اے آرٹس اکیڈمی سے وابستہ ہوگئیں۔ اسی دوران ان کی شادی ضیا محی الدین سے ہوئی۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن سے رقص کا پروگرام پائل شروع کیا جسے عالمی اعزازات سے نوازا گیا۔ 14 اگست 1994ء کو انہیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
1995-08-14

خورشید شاہد پاکستان کی معروف فن کارہ خورشید شاہد نے اہنی فنی زندگی کا آغاز آل انڈیا ریڈیو سے کیا تھا۔ فنی زندگی کا آغاز مغنیہ کے طور پر کیا، روشن آرا بیگم کی شاگردی اختیار کی اور موسیقی کی بڑی بڑی محفلوں میں داد و تحسین وصول کی۔ بعد ازاں ریڈیو پر صداکاری اور ٹیلی وژن پر اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی کا نام سرفہرست ہے۔ چند فلموں میں بھی کام کیا جن میں چنگاری اور بھولا ساجن کے نام شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 1995 کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
2005-08-14

نیر کمال پاکستان ٹیلی وژن کی معروف فن کارہ نیر کمال 3 دسمبر 1944ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے ابتدائی زمانے میں اداکاری سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا ڈرامہ ایک خط تھا جو 28 نومبر 1964ء کو لاہور مرکز سے نشر ہوا تھا۔ وہ انیس سو نوے کی دہائی تک اداکاری کے شعبے میں فعال رہیں۔ اس دوران انھوں نے ایک فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2005ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ ان کے شوہر فضل کمال پاکستان ٹیلی وژن کے معروف پروڈیوسر تھے۔