1960-03-23

روشن آرأ بیگم ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کا اصل نام وحید النسا بیگم تھا، وہ 1915ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک موسیقی دان گھرانے سے تھا چنانچہ موسیقی سے ان کا لگائو فطری تھا۔ ابتدائی مشق ان کی والدہ چندا بیگم نے کروائی پھر استاد لڈن خان سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے۔ اسی زمانے میں فلموں میں بھی کام کیا۔ پھر کیرانہ گھرانے کے استاد عبدالکریم خان کی شاگردی اختیار کی ا ور کیرانہ گھرانے کی سب سے ممتاز نمائندہ بن گئیں۔ روشن آرا بیگم کی شادی ایک پولیس افسر چوہدری احمد خان سے ہوئی تھی جو موسیقی کے بڑے شوقین تھے۔ چوہدری احمد خان لالہ موسیٰ کے رہنے والے تھے، چنانچہ قیام پاکستان کے بعد روشن آرا بیگم نے بھی لالہ موسیٰ میں اقامت اختیار کی اور ریڈیو پاکستان لاہور سے گاہے بہ گاہے موسیقی کے پروگرام کرتی رہیں۔ روشن آرا بیگم کو حکومت پاکستان نے 23 مارچ 1960ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور بعد ازاں ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔ 5 دسمبر 1982ء کو روشن آرا بیگم وفات پاگئیں۔ وہ لالہ موسیٰ ضلع گجرات میں جی ٹی روڈ پر تعمیر شدہ مقبرہ میں آسودہ خاک ہیں۔
1960-03-23

استاد مبارک علی فتح علی قوال پاکستان کے نامور قوال برادران استاد مبارک علی فتح علی قوال نے موسیقی کا فن اپنے والد مولا بخش سے سیکھا تھا۔ اس خاندان کے بانی حاجی معروف اپنے وقت کے معروف گائیکوں میں شمار ہوتے تھے۔ استاد مبارک علی فتح علی قوال نے قوالی کا ایک نیا اسلوب وضع کیا۔ فتح علی خان دھرپد انگ گانے میں کمال رکھتے تھے اور استاد مبارک علی خیال انگ۔ چنانچہ جب یہ دونوں مل کر قوالی گاتے تھے تو ایک عجیب لطف پیدا ہوجاتا تھا۔ استاد مبارک علی فتح علی قوال کلام اقبال پیش کرنے میں بھی اختصاص رکھتے تھے۔ خصوصاً جب وہ شکوہ، جواب شکوہ گاتے تھے تو سامعین پر وجد طاری ہوجاتا تھا۔ استاد مبارک علی فتح علی قوال کو 23مارچ 1960ء کو حکو مت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا ۔ استاد مبارک علی خان، استاد مجاہد مبارک علی خان کے اور استاد فتح علی خان استاد نصرت فتح علی خان کے والد تھے۔
1961-03-23

استاد نزاکت علی خان ، استاد سلامت علی خان استاد نزاکت علی خان 1932ء میں استاد سلامت علی خان 12 دسمبر 1934ء کومشرقی پنجاب میںضلع ہوشیار پور میں شام چوراسی نامی قصبہ میں پیدا ہوئے جو اپنے موسیقی کے گھرانے کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مشہور ہے، ان کا سلسلہ نسب استاد چاند خان، سورج خان سے ملتا ہے جو دربار اکبری کے نامور گائیک اور میاں تان سین کے ہم عصر تھے۔ استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان کے والد استاد ولائت علی خان بھی اپنے زمانے کے نامور موسیقار تھے اور دھرپد گائیکی میں اختصاص رکھتے تھے۔ استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان نے اپنے والد ولایت علی خان سے اکٹھے تعلیم حاصل کی اور نہایت کم عمری میں اپنی گائیکی کی وجہ سے ہندوستان بھرمیں مشہور ہوگئے۔انھوں نے اپنے ایک بزرگ میاں کریم بخش مجذوب سے خیال گائیکی بھی سیکھی۔قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پہلے ملتان اور پھر لاہور میں اقامت اختیار کی اور پاکستان کے معروف موسیقاروں اور گائیکوں میں شمار ہونے لگے۔ استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان کو حکومت پاکستان نے 23 مارچ 1961 ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا بعد ازاں انھیں ستارہ امتیاز سے بھی سرفراز کیا گیا۔ استاد نزاکت علی خان نے 13 جولائی 1983ء کو راولپنڈی میں اور استاد سلامت علی خان نے 11 جولائی 2001ء کو لاہور میں وفات پائی۔
1965-08-14

فردوسی بیگم مشرقی پاکستان کی نامور گلوکارہ فردوسی بیگم 1941 ء میں کوچ، بہار (بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد عباس الدین معروف موسیقار تھے۔ انھوں نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم استاد منیر حسین خان، استاد محمد حسین خان اور استاد مستانہ گاما سے حاصل کی جبکہ استاد قادر ضمیری نے انھیں غزل اور ٹھمری کے اسرار سے واقف کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے والدین کے ساتھ ڈھاکا میں سکونت پزیر ہوئیں۔ 1955ء میں صرف چودہ برس کی عمر میں ڈھاکا ریڈیو اسٹیشن سے ان کا پہلا نغمہ نشر ہوا اور جلد ہی ان کی آواز ڈھاکا ریڈیو اسٹیشن کا ایک لازمی جزو بن گئی۔ ان کی آواز سراہنے والوں میں قاضی نذرالاسلام جیسے افراد شامل تھے۔ 1962ء میں فلم ’’چندا‘‘ سے ان کی فلمی گائیکی کا آغاز ہوا۔ اس فلم کے موسیقار روبن گھوش تھے۔ اس کے بعد فلم تلاش، کاجل، پریت نہ جانے ریت ، سات رنگ، سہرا، ملن، نواب سراج الدولہ، چکوری اور کاروان میں ان کے گائے ہوئے گیتوں نے انہیں پاکستان کی مقبول ترین گلوکارہ بنا دیا۔ انہوں نے متعدد اعزازات حاصل کیے جن میں 14 اگست 1965ء کو دیا جانے والا صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سر فہرست تھا۔
1965-11-18

نورجہاں پاکستان کی نامور اداکارہ اور گلوکارہ نورجہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا اور وہ 21 ستمبر 1926ء کو محلہ کوٹ مراد خان، قصور میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنی فنی زندگی کا آغازبطور چائلڈ اسٹار 1935ء میں کلکتہ میں بننے والی فلم ’’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘‘ سے کیا۔ چند مزید فلموں میں کام کرنے کے بعد 1938ء میں وہ لاہور واپس آگئیں جہاں انہوں نے فلم ساز دل سکھ پنجولی اور ہدایت کار برکت مہرا کی فلم ’’گل بکائولی‘‘ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ یہی وہ فلم تھی جس سے بطور گلوکارہ بھی ان کی شہرت اور مقبولیت کا آغاز ہوا، اس کے بعد انہوں نے فلم ’’یملا جٹ‘‘ اور ’’چوہدری‘‘ میں کام کیا۔ 1941ء میں موسیقار غلام حیدر نے انہیں اپنی فلم ’’خزانچی‘‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا۔ 1941ء میں ہی بمبئی میں بننے والی فلم ’’خاندان‘‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے ان کی محبت پروان چڑھی اور دونوں نے شادی کرلی۔ قیام پاکستان سے پہلے ان کی دیگر معروف فلموں میں،دوست، لال حویلی، بڑی ماں، نادان، نوکر، زینت، انمول گھڑی اور جگنو کے نام سرفہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے فلم ’’چن وے‘‘ سے اپنے پاکستانی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کی ہدایات بھی انہی نے دی تھی۔ بطور اداکارہ ان کی دیگر فلموں میں گلنار، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کرلیا۔ ایک ریکارڈ کے مطابق انہوں نے 995 فلموں کے لئے نغمات ریکارڈ کروائے جن میں آخری فلم ’’گبھرو پنجاب دا‘‘ تھی جو 2000ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ 18 نومبر 1965ء کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور بعد ازاں نشان امتیاز عطا کیا تھا جبکہ ان کے مداحین نے انہیں ملکہ ترنم کا خطاب عطا کیا تھا۔ نورجہاں 23 دسمبر 2000ء کو دنیا سے رخصت ہوئیں۔وہ کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسود ہ خاک ہیں۔
1969-08-14

استاد امید علی خان پاکستان کے ممتاز کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد امید علی خان 1914ء میں امرتسر میں جنڈیالہ گرو نامی گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ان کا تعلق موسیقی کے مشہور گوالیار گھرانے سے تھا۔ اس گھرانے کا میاں تان سین سے براہ راست نسبی تعلق ہے۔ امید علی خان کے والد استاد پیارے خان اور دادا استاد میران بخش اپنے زمانے کے مشہور گائیک تھے۔ استاد امید علی خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی پھر پٹیالہ گھرانے کے استاد عاشق علی خان کے شاگرد ہوگئے۔ یہی سبب تھا کہ استاد امید علی خان کی گائیکی میں گوالیار اور پٹیالہ دونوں گھرانوں کی امتیازی خصوصیات جمع ہوگئی تھیں۔ استاد امید علی خان کے والد استاد پیارے خان ریاست خیرپور سے وابستہ ہوگئے تھے۔ استاد امید علی خان نے بھی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ سندھ میں بسر کیا۔ ان کے شاگردوں میں استاد منظور حسین، فتح علی خاں اور حمید علی خان کے نام بہت نمایاں ہیں۔ استاد امید علی خان کا انتقال 14 جنوری 1979ء کو لاہور میں ہوا اور وہ وہیں آسودہ خاک ہیں۔ حکومت پاکستان نے انھیں 14 اگست 1969ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
1969-08-14

استاد امانت علی خان، استاد فتح علی خان پاکستان کے نامور موسیقار اور گلوکار استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی خان کا تعلق برصغیر کے مشہور موسیقی دان گھرانے پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ وہ جرنیل علی بخش کے پوتے اور استاد اختر حسین خان کے فرزند ہیں۔ استاد امانت علی خان 1922ء میں اوراستاد فتح علی خان 1935ء میں پیدا ہوئے تھے اور 1948ء میں پاکستان آگئے تھے۔ استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی خان بالعموم ایک ساتھ سنگت کرتے تھے وہ کلاسیکی اور ہلکی پھلکی موسیقی دونوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ استاد امانت علی خان کی آواز میں ملائمت تھی جسے فتح علی خان اپنی مرکیوں، تان پلٹوں اور پیوندوں سے سجاتے چلے جاتے تھے اور سننے والوں پر سحر طاری کردیتے تھے۔ حکومت پاکستان نے ان دونوں بھائیوں کو 1969 ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ استاد امانت علی خان 18 ستمبر 1974ء کو لاہورمیں وفات پاگئے جہاں وہ مومن پورہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔استاد فتح علی خان لاہور میں قیام پذیر ہیں۔
1969-08-14

لیلیٰ ارجمند بانو پاکستان کی معروف گلوکارہ اور سماجی کارکن لیلیٰ ارجمند بانو 5 جنوری 1929 ء کو پیدا ہوئیں۔ ایڈن گرلز اسکول ڈھاکا اور ڈھاکہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ کلاسیکی موسیقی میں ان کے استاد ، استاد گل محمد خان تھے۔ وہ نذرل گیتی، رابندر سنگیت اور غزل گانے پر عبور رکھتی تھیں۔ وہ ڈھاکہ کے ریڈیو اسٹیشن سے اس کے قیام کے دن سے وابستہ تھیں۔ 1968 ء میں انھوں نے شہنشاہ ایران کے ہاتھوں کورونیشن میڈل حاصل کیا۔ 14 اگست 1969 ء کو انہیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کرکردگی عطا کیا۔ 1977 ء سے 1986ء تک وہ ڈھاکہ میوزک کالج سے بطور پرنسپل وابستہ رہیں۔ 10 فروری 1995ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔
1970-08-14

مصلح الدین اور ناہید نیازی مصلح الدین پاکستان کے مشہور فلمی موسیقار تھے جبکہ ان کی اہلیہ ناہید نیازی گلوکاری کے شعبے سے منسلک تھیں۔ مصلح الدین 1938ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ڈھاکا یونیورسٹی سے ایم اے کیا، انہیں موسیقی سے بے حد دلچسپی تھی چنانچہ وہ قسمت آزمائی کے لئے پاکستان کے فلمی مرکز لاہور آگئے۔ یہاں ان کی ملاقات ہدایت کار لقمان سے ہوئی جنہوں نے مصلح الدین کی بنائی ہوئیں طرزیں سنیں تو انہیں اپنی فلم ’’آدمی‘‘ کی موسیقی ترتیب دینے کے لئے منتخب کرلیا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد مصلح الدین نے یکے بعد دیگرے متعدد فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں راہ گزر، ہم سفر، زمانہ کیا کہے گا، دال میں کالا، دل نے تجھے مان لیا، دیوانہ، نہلے پہ دہلا، شکاری، جوکر، جوش، جان پہچان، آوارہ اور مٹی کے پتلے کے نام شامل ہیں۔ انہیں فلم ہم سفر کی عمدہ اور مسحور کن موسیقی ترتیب دینے پر نگار ایوارڈ بھی عطا کیا گیا تھا۔ مصلح الدین مغربی اور عربی موسیقی سے خوب استفادہ کرتے تھے لیکن وہ ان میں بنگالی موسیقی کی چاشنی اس طرح شامل کردیا کرتے تھے کہ وہ اپنی لگنے لگتی تھی۔ 7 اگست 2003ء کو مصلح الدین برمنگھم (انگلستان )میں وفات پاگئے۔ مصلح الدین کی شادی مشہور گلوکارہ ناہید نیازی سے ہوئی تھی جو پاکستان کے نامور موسیقار اور شاعر جناب سجاد سرور نیازی کی صاحب زادی تھیں۔ ناہید نیازی 26 فروری 1941ء کو پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز 1956 ء میں بننے والی فلم مس 56 سے کیا تھا۔ انھوں نے مجموعی طور پر 148 فلمی نغمے گائے جن میں سے بیشتر سننے والوں میں بے حد مقبول ہوئے۔ ناہید نیازی کے گائے ہوئے کئی غیر فلمی گیت بھی بہت پسند کیے گئے جن میں ’’ایک بار پھر کہو ذرا‘‘ سر فہرست ہے۔ 14 اگست 1970ء کو حکومت پاکستان نے مصلح الدین اور ناہید نیازی کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعزاز عطا کیا۔
1978-03-23

منیر سرحدی پاکستان کے ممتاز سارندہ نواز منیر سرحدی 1932ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ برصغیر کے مشہور سارندہ نواز استاد پذیر خان کے صاحبزادے تھے جنہوں نے نہ صرف سارندہ میں بعض تبدیلیاں کیں بلکہ اپنی ریاضت، محنت اور خداداد صلاحیت سے اس ساز کو وہ مقام دلوایا جس کا وہ برسوں سے حق دار تھا۔ استاد پذیر خان نے لوک اور کلاسیکی موسیقی کے ملاپ سے سارندہ نوازی میں ایک نئے رنگ کا اضافہ کیا اور اس ساز کو سولوساز یعنی تنہا بجائے جانے والے ساز کا درجہ دیا۔ استاد پذیر خان کے بعد ان کا ورثہ منیر سرحدی نے سنبھالا، جنہوں نے اپنے والد کے ساتھ ساتھ غفار حیدر خان بریلوی اور افضل حسین نگینوی سے بھی اس ساز کے بجانے کی تربیت حاصل کی اور خود بھی ایک باکمال فن کار کہلائے۔ منیر سرحدی، 23 مئی 1980ء کو دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے وفات پاگئے۔ ان کی عمر فقط 48 برس تھی۔ منیر سرحدی کو حکومت پاکستان نے 23 مارچ 1978ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی نوازا تھا۔