1958-03-23

عبدالحفیظ کاردار پاکستان کے نامور ٹیسٹ کرکٹر عبدالحفیظ کاردار 17 جنوری 1925ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے تین ٹیسٹ میچوں میں بھارت کی نمائندگی کی اور پھر 1952ء سے 1958ء کے دوران انہوں نے 23 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی جن میں چھ میچ جیتے، چھ ہارے اور گیارہ ٹیسٹ میچ ڈرا ہوئے۔ 23مارچ 1958ء کو انہیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ عبدالحفیظ کاردار نے کچھ وقت سیاست کے میدان میں بھی گزارا اور وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ اسی دوران انہیں پنجاب کے وزیر تعلیم کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا۔ عبدالحفیظ کاردار 21 اپریل 1996ء کو لاہور میں وفات پاگئے اورمیانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
1958-03-23

فضل محمود معروف کرکٹر فضل محمود 18 فروری 1927ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ انہوں نے 1943ء سے کرکٹ کھیلنی شروع کی اور 1952ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستان کی پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن منتخب ہوئے۔ پاکستان کے ٹیسٹ کرکٹ کے آغاز میں انہوں نے پاکستان کو جو کامیابیاں دلوائیں وہ پاکستانی کرکٹ کی حسین یادیں شمار کی جاتی ہیں۔ بھارت کے خلاف لکھنو ٹیسٹ میں پاکستان کی پہلی کامیابی ہو یا اوول کی شاندار فتح، فضل محمود ہر کامیابی میں سب سے آگے رہے۔ فضل محمود نے اپنے کیریئر میں مجموعی طور پر 34 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 139 وکٹیں حاصل کیں۔ فضل محمود نے 10 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی بھی کی۔ وہ پاکستان کے پہلے کپتان تھے جنہوں نے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کی تھی۔وہ پاکستان کے پہلے کھلاڑی تھے جنہیں کرکٹ کی مشہور کتاب وزڈن نے سال کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شمار کیا۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں 100 وکٹوں کا ہدف عبور کرنے والے بھی پہلے پاکستانی کھلاڑی تھے۔ انہیں حکومت پاکستان نے 23 مارچ 1958ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ فضل محمود 30 مئی 2005ء کو لاہور میں وفات پاگئے اور قبرستان مسافر خانہ، گڑھی شاہو میں سپردخاک ہوئے۔
1958-03-23

ہاشم خان اسکواش کے نامور کھلاڑی ہاشم خان 1914 ء میں پشاور کے نزدیک ایک گائوں نواکلی میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کی جانب سے برٹش اوپن اسکواش چیمپئن شپ جیتنے والے پہلے کھلاڑی تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں 1951ء سے 1958ء تک سات مرتبہ یہ ٹورنامنٹ جیتا اور ایک مرتبہ انہیں فائنل میں شکست ہوئی۔ جب ہاشم خان نے پہلی مرتبہ برٹش اوپن جیتی تو ان کی عمر 37 برس تھی۔ ہاشم خان تین مرتبہ یو ایس این اور تین مرتبہ کینیڈین اوپن کا ٹائٹل بھی جیتنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے بال بوائے سے عالمی چیمپئن تک کا سفر سخت محنت سے مکمل کیا۔ 1960 ء کی دہائی میں ہاشم خان اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ امریکی ریاست کولوراڈو منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے اسکواش کی کوچنگ شروع کر دی تھی۔ بعدازاں انہوں نے امریکہ میں ہی پروفیشنل ا سکواش بھی کھیلی اور 90 برس کی عمر تک مقابلوں میں حصہ لیتے رہے۔ ہاشم خان کو حکومت پاکستان نے 23 مارچ 1958 ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کا انتقال 18اگست 2014ء کو تقریباً سو برس کی عمر میں ہوا۔
1958-03-23

صوبیدار عبدالخالق صوبیدار عبدالخالق 1931ء میں اٹک میں پیدا ہوئے تھے۔ 1948ء میں وہ پاکستانی فوج میں سپاہی کے طور پر شامل ہوئے۔ انھیں کھیلوں خصوصاً چھوٹی دوڑوں سے گہری دلچسپی تھی۔ اپنے ادارے کی سرپرستی کی وجہ سے وہ تھوڑے ہی عرصے میں نہایت اعلیٰ درجے کے اسپرنٹر بن گئے۔ انھوں نے 1954ء اور 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں سو میٹر کی دوڑ میں طلائی تمغے جیتے اور کئی مرتبہ ایتھلیٹک چیمپئین رہے۔ 23مارچ 1958ء کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا۔ 10مارچ 1988ء کو ان کا انتقال ہوگیا اور وہ راولپنڈی میں آ سودہ خاک ہوئے۔
1959-03-23

حنیف محمد پاکستان کے نامور ٹیسٹ کرکٹر حنیف محمد 21 دسمبر 1934ء کوجونا گڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ پاکستان کی اس پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن تھے جس نے اکتوبر 1952ء میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلی تھی۔ حنیف محمد 1969ء تک ٹیسٹ کرکٹ کے میدان میں فعال رہے اس دوران انہوں نے 55 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 12 سنچریوں کی مدد سے مجموعی طور پر 3915 رنز اسکور کیے۔ ان کی ان 12 سنچریوں میں ایک ٹرپل سنچری (337 رنز) بھی شامل تھی جو آج بھی کسی پاکستانی کرکٹر کا ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے بڑا اسکور ہے۔ حنیف محمد کے تین بھائیوں وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد نے بھی ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ان کے ایک اور بھائی رئیس محمد نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں حصہ لیا اور ایک ٹیسٹ میچ میں بارہویں کھلاڑی کے طور پر شرکت کی۔ حنیف محمد کے صاحبزادے شعیب محمد نے بھی ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ 1968ء میں حنیف محمد کو وزڈن نے ’’کرکٹر آف دی ایئر‘‘ کا اعزاز دیا۔ وہ ان پانچ پاکستانی کھلاڑیوں میں شامل ہیں جن کی تصاویر آئی سی سی کے ہال آف فیم میں دنیا کے 78 بڑے کھلاڑیوں کی تصاویر کے ساتھ آویزاں کی گئی ہیں (پاکستان کے بقیہ چارکھلاڑی عمران خان، جاوید میاں داد، وسیم اکرم اور وقار یونس ہیں)۔ حنیف محمد نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی 499 رنز کی ایک اننگز کھیلی تھی جو ایک طویل عرصے تک دنیا کی سب سے بڑی اننگز کے اعزاز کی حامل رہی تھی۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 23 مارچ 1959 ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔وہ کرکٹ کی دنیا میں لٹل ماسٹر کی عرفیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔
1960-03-23

بروجن داس بروجن داس پاکستان کے ایک نامور تیراک تھے۔ وہ 9 دسمبر 1927 ء کو مشرقی بنگال کے گاؤں بکرم پور میں پیدا ہوئے۔ بہت کم عمری سے ہی انہیں تیراکی کا شوق تھا۔ 1951 ء سے 1957 ء کے دوران انھوں نے پاکستان میں فری اسٹائل تیراکی کے مقابلوں میں کئی ریکارڈ قائم کیے۔ 23 اگست 1958 ء کو انھوں نے 14 گھنٹے 57 منٹ میں رودبار انگلستان عبور کرکے یہ رودبار عبور کرنے والے پہلے پاکستانی تیراک ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے یہ رودبار کئی مرتبہ عبور کی اور بالآخر 22 ستمبر 1961ء کو یہ رودبار 10 گھنٹے 35 منٹ میں عبور کرکے نیا عالمی ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ 23 مارچ 1960 ء کو انہیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ بروجن داس کا انتقال یکم جون 1998 ء کو ہوا۔
1960-03-23

روشن خان اسکواش کے عظیم کھلاڑی روشن خان 1927ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1954ء اور 1955ء میں وہ برٹش اوپن کے سیمی فائنل تک اور 1956ء میں فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے مگر وہاں اپنے ہم وطن ہاشم خان کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ 1957ء میں ہاشم خان اور روشن خان برٹش اوپن کے فائنل میں ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے ہوئے۔ اس مرتبہ کامیابی روشن خان کا مقدر بنی تاہم روشن خان یہ اعزاز اپنے پاس ایک ہی سال برقرار رکھ سکے۔ 23 مارچ 1960ء کو حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا۔ روشن خان 6جنوری2006ء کو کراچی میں وفات پا گئے اور فوجی قبرستان میں آسودئہ خاک ہوئے۔ 1980ء کی دہائی میں دنیائے سکواش پر حکمرانی کرنے والے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان، روشن خان کے فرزند ہیں۔
1960-03-23

عبدالحمید حمیدی ہاکی کے مشہور کھلاڑی جنہوں نے 1956 ء کے میلبرن اولمپکس اور 1960ء کے روم اولمپکس میں پاکستان کی ٹیم کی قیادت کی اور بالترتیب چاندی اور سونے کے تمغے حاصل کیے۔ عبدالحمید حمیدی 7 جنوری 1927ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 23 مارچ 1960ء کو انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ وہ ہاکی کے پہلے کھلاڑی تھے جنھیں یہ اعزاز عطا کیا گیا تھا۔
1961-03-23

اعظم خان اعظم خان، اسکواش کے نامور کھلاڑی ہاشم خان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ابتدا میں ٹینس کھیلا کرتے تھے لیکن اسکواش کے میدان میں اپنے بڑے بھائی کی کامرانیاں دیکھ کر اسکواش کھیلنے لگے۔ مارچ 1954ء میں پہلی مرتبہ برٹش اوپن کے فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے لیکن ہاشم خان کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ مارچ 1959ء میں وہ پہلی مرتبہ یہ چیمپئین شپ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ اعظم خان نے اس کے بعد 1962ء تک یہ اعزاز اپنے پاس رکھا اور مسلسل چار سال تک برٹش اوپن کے فاتح رہے۔ 1962 ء میں انھوں نے یو ایس اوپن چیمئین شپ بھی جیت لی۔ 23 مارچ 1961ء کو حکومت پاکستان نے اعظم خان کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ اسکواش سے ریٹائرمنٹ کے بعد اعظم خان برطانیہ میں مقیم ہوئے جہاں انھوں نے اسکواش کا کھیل سکھانے کے لیے ایک اسکواش کلب کھولا تھا۔
1962-03-23

بھولو پہلوان پاکستان کے نامور پہلوان بھولو پہلوان 18 دسمبر1922ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ بھولو پہلوان کا اصل نام منظور حسین تھا۔ ان کے والد امام بخش پہلوان اور چچا گاما پہلوان برصغیر کے نامور پہلوانوں میں شمار ہوتے تھے۔ 1931ء میں ان کے والد نے انہیں تربیت کے لئے ان کے ماموں حمیدا پہلوان کے سپرد کردیا۔ جنہوں نے فقط چار برس کی تربیت میں بھولو کو اس قابل بنادیا کہ وہ اپنے جوڑ کے کسی بھی پہلوان سے مقابلہ کرنے کے لئے اکھاڑے میں اتر سکتے تھے۔ 18 برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بھولو نے ہندوستان رجواڑوں اور مسلم ریاستوں کے مانے ہوئے 8 پہلوانوں کو زیر کرلیا تھا۔ 1946ء تک ایسے شاہی پہلوانوں کو بھی زیر کرلیا تھا جنہیں ریاستوں نے گرز بھی عطا کر رکھے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھولو پاکستان آ گئے جہاں 1948ء میں ان کا سنسنی خیز مقابلہ یونس پہلوان کے ساتھ ہوا۔ کل 8 منٹ کے سنسنی خیز مقابلے کے بعد بھولو پہلوان نے یونس پہلوان کو شکست دے کر رستم پاکستان کا اعزاز حاصل کیا۔ اس وقت سے تادم مرگ روایتی گرز جو اکھاڑے کی بادشاہت کا نشان ہے۔ بھولو پہلوان کی تحویل میں رہا۔ 23 مارچ 1962 ء کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ 1960ء میں گاما پہلوان کے انتقال کے بعد انہوں نے دنیا بھر کے پہلوانوں کو کشتی لڑنے کا چیلنج دیا لیکن جن پہلوانوں نے ان کا چیلنج قبول کیا انہیں ان کے چھوٹے بھائیوں نے ایک ایک کرکے زیر کرلیا اور نتیجتاً کوئی بھی پہلوان بھولو سے مقابلے کا اعزاز حاصل نہ کرسکا۔ 1967ء میں بھولو پہلوان نے اپنے بھائیوں کے ہمراہ انگلستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اینگلو فرینچ ہیوی ویٹ چیمپئن ہنری پیری کو صرف 28 سیکنڈ میں ہراکر ’’رستم زماں‘‘ کا اعزاز حاصل کرلیا۔ 6 مارچ 1985ء کو یہ عظیم پہلوان جسے کوئی شکست نہ دے سکا تھا، موت کے ہاتھوں شکست کھا گیا انہیں لاہور میں ان کے اکھاڑے میں سپردخاک کیا گیا۔