> <

1958-03-23
2940 Views
حفیظ جالندھری حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ء کو پنجاب کے مشہور شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’’شاہنامہ اسلام‘‘ ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں ’’فردوسی اسلام‘‘ کا خطاب دیا گیا۔  حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار، تلخابہ شیریں اورسوزو ساز، افسانوں کا مجموعہ ’’ہفت پیکر‘‘ گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب ’’چیونٹی نامہ‘‘ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں 23 مارچ 1958ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر1982ء کو لاہور میں وفات پائی۔ وہ مینار پاکستان کے سایہ تلے آسودہ خاک ہیں۔            
1958-03-23
3417 Views
 کوی جسیم الدین بنگالی کے نامور شاعر کوی جسیم الدین یکم جنوری 1903ء کو فرید پور میں پیدا ہوئے۔ 1931ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ سقوط ڈھاکا سے پہلے پاکستان کے صف اول کے شعرأ میں شمار ہوتے تھے۔  23 مارچ 1958ء کو اُنھیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا۔  1959ء میں انھوں نے رائٹرز گلڈ آف پاکستان کے تاسیسی اجلاس کی صدارت کی۔ 1969ء میں اُنہیں رابندر بھارتی یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ 1974ء میں انہیں بنگلہ دیش اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا لیکن اُنھوں نے اسے لینے سے انکار کردیا۔ انھیں عوام نے ’’پلی کوی‘‘ (لوک شاعر) کا خطاب دیا اور وہ اسے اپنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ 13 مارچ 1976 ء کو ڈھاکا میں وفات پائی اور اپنے آبائی گاوں بمل گوہا میں آسودہ خاک ہوئے۔      
1959-03-23
4215 Views
 بابائے اردو مولوی عبدالحق اردو کے عظیم محسن بابائے اردو مولوی عبدالحق 1870ء میں ہاپوڑ ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر میرٹھ میں پڑھتے رہے۔ 1894ء میں علی گڑھ سے بی۔ اے کیا۔ علی گڑھ میں سرسید کی صحبت میسر رہی۔ جن کی آزاد خیالی اور روشن دماغی کا مولانا کے مزاج پر گہرا اثر پڑا۔ 1895ء میں حیدرآباد میں ایک سکول میں ملازمت کی اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد منتقل ہوگئے۔ ملازمت ترک کرکے اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے اور اسی عہدہ پر آخر تک فائز رہے۔ جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام ’’انجمن ترقی اردو‘‘ تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے جنھوں نے بہت جلد انجمن ترقی اردو کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔ مولوی صاحب اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔ انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی ، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیاگیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔ اس انجمن کے تحت لسانیات‘ لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اسی انجمن کے اہتمام میں اردو آرٹس کالج کا اردو سائنس کالج‘ اردو کامرس کالج اور اردو لاء کالج جیسے ادارے قائم کیے۔ مولوی عبدالحق انجمنِ ترقّی اردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ ان کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔ 1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انہیں بابائے اردو کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ 1959ء کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے 16 اگست 1961ء کو وفات پائی۔وہ کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے عبدالحق کیمپس کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔      
1959-03-23
2958 Views
مولانا محمد اکرم خان بنگالی زبان کے نامور ادیب اور صحافی اور عالم دین مولانا محمد اکرم خان 8 جون 1868ء کوپیدا ہوئے تھے۔ وہ سیاست کے میدان میں بھی فعال رہے۔انھوں نے مشرقی پاکستان مسلم لیگ کی صدارت کے فرائض بھی انجام دئیے اور وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ وہ کئی اخبارات سے بھی منسلک رہے جن میں دینک آزاد، زمانہ اور ماہنامہ محمدی کے نام سرفہرست ہیں۔ انھوں نے بنگالی میں قران پاک کا ترجمہ بھی کیا اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر بھی ایک کتاب تحریر کی۔ 23 مارچ 1959ء کو حکومت پاکستان نے مولانا محمد اکرم خان کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کرنے کا اعلان کیا۔ 18اگست 1968ء کو ان کا ڈھاکا میں انتقال ہوا۔        
1960-03-23
3628 Views
ڈاکٹر سید محمد عبداللہ اردو کے نامور ادیب، محقق اور ماہر تعلیم 5 اپریل 1904ء کو منگلور ضلع مانسہرہ میں پیدا ہوئے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔ اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل اور اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مدیر رہے۔ متعدد کتابوں کے مصنف تھے جن میں ادبیات فارسی میں ہندوئوں کا حصہ، شعرائے اردو کے تذکرے اور تذکرہ نگاری کا فن اور وجہی سے عبدالحق تک کے نام سر فہرست ہیں۔ حکومت پاکستان نے 23 مارچ 1960ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور بعد ازاں ہلال امتیاز کے اعزازات عطا کیے۔ 14 اگست 1986ء کو وفات پائی۔        
1962-03-23
2840 Views
 صوفی غلام مصطفی تبسم اردو، فارسی اور پنجابی کے نامور شاعر، ادیب، نقاد اور عالم صوفی غلام مصطفی تبسم 4 اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ لاہور کے تعلیمی اداروں سے بطور استاد وابستہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، ہفت روزہ لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں سے منسلک رہے۔ صوفی تبسم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، شاعر، استاد، شارح، مترجم، نقاد اور ادیب ان کی شخصیت کی مختلف جہتیں تھیں، پہلے اصغر پھر تبسم تخلص کیا۔ ان کی اردو اور فارسی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ انہوں نے بچوں کی شاعری کے حوالے سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کا تخلیق کردہ کردار ٹوٹ بٹوٹ انہیں بچوں کے ادب میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ حکومت پاکستان نے 23 مارچ 1962ء کو انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا تھا۔  اس کے علاوہ انہیں حکومت ایران نے نشان سپاس اور حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔صوفی غلام مصطفی تبسم 7فروری 1978ء کولاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔        
1963-08-14
3078 Views
شاہد احمد دہلوی اردو کے صاحب طرز ادیب، ساقی کے مدیر اور ماہر موسیقی شاہد احمد دہلوی 22 مئی 1906ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق اردو کے ایک اہم ادبی خانوادے سے تھا وہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔ جنوری 1930ء میں انہوں نے دہلی سے اردو کا ایک باوقار جریدہ ’’ساقی‘‘ جاری کیا۔ 1936ء میں وہ ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے اور اس کی دہلی شاخ کے سیکریٹری بن گئے۔ قیام پاکستان کے بعد شاہد صاحب نے کراچی میں اقامت اختیار کی یہاں انہوں نے ساقی کا دوبارہ اجرا کیا جس کا سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔ وہ اردو کے ایک بہت اچھے نثرنگار تھے۔ ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینہ گوہر ، بزم خوش نفساں ، بزم شاہد اور طاق نسیاں کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دلی کی بپتا اور اجڑا دیار کے نام سے مرحوم دلی کے حالات قلم بند کیے۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے اور انہوں نے انگریزی کی لاتعداد کتابیں اردو میں منتقل کیں۔ شاہد احمد دہلوی کو موسیقی میں بھی کمال حاصل تھا۔ انہوں نے دہلی گھرانے کے مشہور استاد، استاد چاند خان سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔شاہد احمد دہلوی قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے جہاں وہ ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام پیش کرتے رہے۔ انہوں نے موسیقی کے موضوع پر بھی لاتعداد مضامین قلم بند کیے جن کا مجموعہ ’’مضامین موسیقی‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔ شاہد احمد دہلوی  27مئی 1967ء کو  دنیا سے رخصت ہوئے۔ حکومت پاکستان نے 14 اگست 1963ء کو ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ وہ کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔      
1964-08-14
2144 Views
مولانا صلاح الدین احمد اردو کے نامور ادیب اور ’’ادبی دنیا‘‘ کے مدیر مولانا صلاح الدین احمد 25 مارچ 1902ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدا ہی سے انہیں ادبی صحافت کا بڑا اچھا ذوق تھا۔ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے ایک وقیع اردو رسالہ ’’خیالستان‘‘ جاری کیا۔ پھر 1934ء میں اردو کا ایک انتہائی اہم جریدہ ادبی دنیا شائع کرنا شروع کیا۔ مولانا صلاح الدین احمد ’’اردو بولو، اردو لکھو، اردو پڑھو‘‘ کی تحریک کے سرخیل تھے اسی وجہ سے انہیں پنجاب کا بابائے اردو کہا جاتا تھا۔ حکومت پاکستان نے انہیں بعدازمرگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ مولانا صلاح الدین احمد نے 14جون 1964ء کوساہیوال میں وفات پائی اور لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ان کی وفات کے بعد 14 اگست 1964ء کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کرنے کا اعلان کیا۔        
1965-08-14
2432 Views
سید امتیاز علی تاج سید امتیاز علی تاج کا شمار اردو کے صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے اور ان کا ڈرامہ ’’انار کلی‘‘ اردو کے کلاسکس میں گنا جاتا ہے۔ امتیاز علی تاج 13 اکتوبر 1900ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے‘ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ دور طالب علمی ہی میں انہوں نے انگریزی کے کئی معرکہ آرا ڈراموں کو اردو میں منتقل کیا اور انہیں اسٹیج کیا۔ 1925ء میں ان کا معرکہ آرا ڈرامہ انار کلی اشاعت پذیر ہواجو شائع ہوتے ہی کلاسک کا درجہ اختیار کرگیا۔ امتیاز علی تاج نے ایک بھرپور ادبی زندگی گزاری۔ انہوں نے فن ڈرامہ نگاری پر تنقیدی مضامین لکھے‘ لاتعداد ڈرامے اردو میں منتقل کیے‘ اردو کے کلاسیکی ڈراموں کے متون کو مرتب اور شائع کیا ‘ کئی فلموں کی کہانیاں لکھیں اور پاکستان آرٹس کونسل‘ لاہور کے سیکرٹری اور مجلس ترقی ادب لاہور کے ناظم رہے۔حکومت پاکستان نے ان کی اعلیٰ ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 14 اگست 1965ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور بعد ازاں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ 18 اور 19 اپریل 1970ء کی درمیانی رات دو نامعلوم نقاب پوش حملہ آوروں نے‘ جو سید امتیاز علی تاج کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہوئے تھے‘ چاقوئوں کے پے در پے وار کرکے انہیں شدید زخمی کردیا جو ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اگلے دن خالق حقیقی سے جاملے۔          
1965-08-14
3202 Views
    علامہ عبدالعزیز میمن عربی زبان و ادب کے عظیم عالم، استاد اور 30 سے زیادہ کتابوں کے مصنف مولانا عبدالعزیز میمن 23 اکتوبر 1888ء کو پڑدھری (راج کوٹ) میں پیدا ہوئے تھے۔ راج کوٹ اور جوناگڑھ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دہلی پہنچے جہاں دیگر علما کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد سے اکتساب علم کا موقع ملا۔ 1913ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اول آئے۔ ایڈورڈ کالج پشاور، اورینٹل کالج لاہور اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ عربی سے بطور استاد وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں شعبہ تحقیقات اسلامی اور کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ عربی قائم کیا پھر 1964ء سے 1966ء تک پنجاب یونیورسٹی میں صدر شعبہ عربی کے فرائض انجام دیئے۔ 14 اگست 1965ء کو حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر آپ کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ 27 اکتوبر 1978ء کو  علامہ عبدالعزیز میمن کراچی میں وفات پاگئے اور سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔        
UP