> <

1947-08-15
3790 Views
جنرل سر فرینک میسروی (پندرہ،اگست ۱۹۴۷ء  تا  دس،  فروری ۱۹۴۸ء) جنرل سر فرینک میسروی 9 دسمبر 1893ء کو ٹرینی ڈاڈ میں پیدا ہوئے ۔  انھوں نے 1913ء میں انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا ۔تقسیم ہند کے وقت متحدہ ہندوستان کی فوج کُل چار لاکھ تھی۔ پاکستان کو اس چار لاکھ فوج میں سے ڈیڑھ لاکھ فوج ملی۔قیام پاکستان سے قبل 30 جون 1947 کو افواج کی تقسیم سے متعلق کونسل کا اجلاس ہوا جس میں قائد اعظم نے شرکت کی، اس اجلاس میں یہ طے پایا کہ اگلے 6ماہ تک جب دونوں ممالک میں افواج کی تقسیم کا کام مکمل نہیں ہو جاتا اور دونوں حکومتیں اپنی افواج کو تنخواہوں کی ادائیگی کرنے کے قابل نہ ہو جائیں اُس وقت تک فیلڈ مارشل سر کلاؤڈ آکن لیک دونوں ممالک کی افواج کے سپریم کمانڈر کے طور پر کام کریں گے ۔ قیام پاکستان کے بعد فوجی افسران کی کمی جونیئر افسران کو قبل از وقت ترقیاں دے کر پوری کی گئی ۔ سر فرینک میسروی کو نئی مملکت پاکستان کا پہلا کمانڈر ان چیف مقرر کیا گیا۔ انھی کے دور میں 22 اکتوبر 1947ء کو آپریشن گلمرگ شروع ہوا اور پاکستانی قبائلی لشکر پیش قدمی کرتا ہوا سری نگر کے مضافات تک پہنچ گیا۔ تاہم کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر کو ریاست کی ’سٹینڈ سٹل پوزیشن‘ ترک کر کے جموں میں بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے اور اگلے دن بھارتی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے الحاق قبول کرنے کے فوراً بعد بھارتی دستے سری نگر میں اترنے لگے اور قبائلی لشکر کو پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔ جنگِ کشمیر یکم جنوری 1949ء کو ’جو جہاں ہے وہیں رک جائے‘ کے اصول کے تحت اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے تھمی۔ تاہم جنرل میسروی کی 35 سالہ فوجی ملازمت کی معیاد دس فروری 1948 کو دورانِ جنگ ہی ختم ہوگئی۔ نہ جنرل میسروی نے توسیع مانگی اور نہ ہی گورنر جنرل یا وزیرِاعظم کی جانب سے کوئی بیان آیا کہ لڑائی کے بیچ میں گھوڑا بدلنا ٹھیک نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھارتی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن اور کمانڈر انچیف سر روب لاک ہارٹ جنرل میسروی سے خوش نہیں تھے کیونکہ میسروی نے انھیں قبائلیوں کی پیش قدمی کے بارے میں بروقت آگاہ نہیں کیا تھا۔ مگر جنرل میسروی کا موقف تھا کہ وہ ایسی رازدارانہ معلومات صرف پاکستانی گورنر جنرل اور حکومت کو دینے کے پابند ہیں۔ سر فرینک میسروی انتہائی پیشہ ور فوجی تھے ، ان کا دور مختصر رہا اور وہ 15 اگست 1947ء سے 10فروری 1948ءاس عہدے پر فائز رہے۔1947-48 کی پاک بھارت جنگ کے وقت جنرل سر فرینک میسروی چُھٹیوں پر تھے اور جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی پاک افواج کے قائم مقام کمانڈر انچیف تھے۔ جنرل میسروی کا انتقال 2 فروری 1974ء کو انگلستان میں ہوا۔        
1972-03-03
4686 Views
جنرل ٹکا خان (تین مارچ ۱۹۷۲ء تا ۲۹ فروری ۱۹۷۶ء) پاکستان کی بری فوج کے ساتویں سربراہ اور پہلے چیف آف اسٹاف جنرل ٹکا خان 7جولائی  1915ء کو تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ اُنہوں نے 22 دسمبر 1940ء کو انڈین ملٹری اکیڈمی، ڈیرہ دون سے گریجویشن کرنے کے بعد انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد اُنھوں نے اپنی خدمات پاک فوج کے سپرد کردیں۔ وہ 7 مارچ 1971ء سے 3ستمبر1971ء کے دوران مشرقی پاکستان کے گورنر رہے۔ 3مارچ 1972ء سے 29 فروری 1976ء کے دوران انہوں نے پاکستان کی مسلح افواج کی قیادت کی۔ اس عہدے سے سبک دوشی کے بعد انھوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے اور اس پارٹی کے سکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ 9دسمبر 1988ء کوپنجاب کے گورنر مقرر ہوئے اور 6۔اگست 1990ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ جنرل ٹکا خان کا انتقال  28مارچ 2002ء کو ہوا۔      
1991-08-16
4245 Views
جنرل آصف نواز جنجوعہ (سولہ اگست ۱۹۹۱ء تا آٹھ جنوری ۱۹۹۳ء)   جنرل آصف نواز جنجوعہ کا تعلق فنِ سپہ گری سے وابستہ خاندان کی تیسری نسل سے تھا۔ وہ بری فوج کے آخری سینڈ ہرسٹ گریجویٹ سربراہ تھے اور ملٹری اکیڈمی کاکول کے کمانڈر بھی رہے تھے۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ 3 جنوری 1937ء کو چکری راجگان ضلع جہلم میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1957میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ سے بھی تربیت حاصل کی ۔ جب جنرل جنجوعہ کو بری فوج کا سربراہ بنایا گیا تو وہ سینیارٹی کے اعتبار سے جنرل شمیم عالم خان کے بعد دوسرے نمبر پر تھے۔ جنرل شمیم کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف نامزد کیا گیا۔ اپنی تعیناتی کے پہلے روز جنرل آصف نواز نے فرمان امروز جاری کیا جس میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملک میں جمہوریت بحال ہو چکی ہے اور مسلح افواج کا سیاسی معاملات سے کوئی واسطہ نہیں ہے ، ہمیں سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا ہوگا ۔مگر ایسا نہ ہو سکا، جنرل آصف نواز کے دور میں بھی فوج کا سیاسی معاملات میں عمل دخل رہا مگر اس بار یہ معاملہ پس پردہ رہا ۔جنرل آصف نواز نے اپنے دور میں ،فوج میں موجود اسلامی انتہا پسندی کو کم کرنے کی کوشش کی ،اور امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ جنرل آصف نواز نے یہ کوشش کی کہ کسی طرح حکومت اور حزب اختلاف میں معاملات بہتر بنائے جائیں اور پس پردہ رابطوں کے ذریعے نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ملاقات کروانے کی کوشش بھی کی ، جنرل آصف نواز کے جلد ہی وزیر اعظم نواز شریف سے اختلافات کا آغاز ہو گیا، وزیر اعظم کو شکایت تھی کہ جنرل آصف نواز سیاست دانوں سے رابطے کرتے ہیں اور ان سے حکومتی امور پر گفت گو کرتے ہیں جو ظاہر ہے کہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ جنرل ا ٓصف نواز کے قریبی ذرائع کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے قریبی لوگ ان سے ملنے آتے تھے اور یہ درخواست کرتے تھے کہ نواز شریف کا تختہ الٹ دیں ، ان سیاست دانوں میں چوہدری پرویز الٰہی ، شیخ رشید احمد بھی شامل تھے ۔جنرل آصف نواز کی طرف سے ان سیاست دانوں کو یہی جواب دیا گیا کہ اپنے معاملات کو سیاسی طریقے سے اپنے طور پر حل کریں جنرل آصف نواز کے دور میں سندھ میں 72بڑی مچھلیوں ،ڈاکوؤںاور پتھارے داروں کے خلاف آٓپریشن کا آغاز ہوا، یہ آپریشن اپنے آغاز میں ہی متنازع ہو گیا جب ٹنڈو بہاول میں غریب ہاریوں کو ڈاکو ظاہر کر کے ہلاک کر دیا گیا ، حقیقت سامنے آنے پر جنرل آصف نواز نے ذمے دار فوجی افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی۔ اس واقعے کے بعد آپریشن کا رُخ کراچی کی جانب موڑ دیا گیا اور ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیاگیا ۔ فوج کی سرپرستی میں ایم کیو ایم سے الگ ہونے والے افراد کو متبادل سیاسی قوت کے طور پر ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے میدان سیاست میں اتارا گیا۔ اُدھر وفاق میں وزیر اعظم نواز شریف کو اطلاعات ملیں کہ ان کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔اُس زمانے میں لاہور اور راول پنڈی کی سڑکوں پر آصف نواز ملک کو بچاؤ کے نعرے پر مشتمل بینرز بھی آویزاں کیے گئے ۔ مگر جنرل آصف نواز کے قریبی ذرائع اس بات کی تردید کرتے رہے کہ ان کا سیاسی حکومت کے خلاف بغاوت یا مارشل لا نافذ کرنے کا ارادہ ہے۔ منتخب حکومت اور جنرل آصف نواز کے درمیان خلیج بڑھتی گئی ، اسی دوران جنوری 1993کی ایک صبح جنرل آصف نوازپُر اسرار حالات میں دل کا دورہ پڑنے سے اچانک انتقال کر گئے ۔ جنرل آصف نواز کی بیوہ نے الزام عائد کیا کہ ان کے شوہر کو حکومت وقت نے زہر دے کر قتل کیا ہے۔ اس الزام کی عدالتی تحقیقات ہوئیں جس میں یہ الزام غلط ثابت ہوا ۔      
1993-01-12
5353 Views
جنرل عبدالوحید کاکڑ (بارہ جنوری ۱۹۹۳ء تا گیارہ جنوری ۱۹۹۶ء)   جنرل عبدالوحید کاکڑ 20 مارچ 1937ء کو پشاور میں پیدا وئے اور انھوں نے 1959میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر تعیناتی سے قبل جنرل عبدالوحید کاکڑ کور کمانڈر کوئٹہ کے عہدے پر تعینات تھے ۔ انہوں نے 1965 میں سیالکوٹ میں چونڈہ کے محاذ اور 1971 میں سلیمانکی ہیڈ ورکس پر خدمات انجام دی تھیں۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی وفات کے وقت سنیارٹی لسٹ میں علی الترتیب لیفٹیننٹ جنرل رحم دل بھٹی، محمد اشرف، فرخ خان اور عارف بنگش شامل تھے، تاہم نواز شریف حکومت نے پانچویں جنرل عبدالوحید کاکڑ کو سپہ سالار منتخب کیا۔ شاید جنرل کاکڑ کے اپنے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ آرمی چیف مقرر کیے جائیں گے، جنر ل عبدالوحید کاکڑکا نام جی ایچ کیو کی جاری کردہ لیفٹیننٹ جنرلزکی اس فہرست میں شامل تھا جو اگست 1993میں ریٹائر ہونے والے تھے ان کی شہرت ایک پیشہ ور فوجی کی تھی۔آرمی چیف کا عہدہ سنبھالتے ہی جنرل وحید کے سامنے کئی معاملات تھے جن میں فروری 1993میں آرمی چیف کا مجوزہ دورہ امریکا، ملک کی سیاسی صورت حال شامل تھی۔امریکا میں نئی کلنٹن انتظامیہ نے اقتدار سنبھال لیا تھا ، پاکستان کو امریکا نے دہشت گرد ریاست قرار نہیں دیا تھا مگر واچ لسٹ پر رکھا ہوا تھا ۔ اس پس منظر میںنئی انتظامیہ کے آنے کے بعد کسی بھی ملک کے فوجی سربراہ کا یہ پہلا دورہ ہوتا، مگر جنرل وحید اس دورے کے لیے تیار نہ تھے اور ساتھ ہی ملک کی سیاسی صورت حال بھی اس کی اجازت نہیں دے رہی تھی، جنرل وحید نے اپنا دورہ امریکا ملتوی کر دیا ۔اس التوا کا نقصان یہ ہوا کہ اگلے آٹھ سال تک کلنٹن انتظامیہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتری کی سطح تک نہ آسکے ۔ جنر ل عبدالوحید کاکڑ کی تقرری پر صدر اور وزیر اعظم کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف بڑھتا ہی گیا ، صدر اسحق خان نے قومی اسمبلی توڑ کر نواز حکومت کو برطرف کر دیا ۔ فوج نے صدر غلام اسحق خان کے فیصلے کا ساتھ دیا ۔نواز حکومت کو سپریم کورٹ نے بحال کر دیا مگر مملکت کا انتظام رک گیا ، چاروں صوبوں میں نواز مخالف حکومتیں قائم تھیں ، پنجاب میں وفاقی حکومت نے رینجرز کے ذریعے اپنی رٹ قائم کرنے کی کوشش کی ، جسے جنرل وحید کی طرف سے ناکام بنا دیا گیا ۔ حزب اختلاف نے لانگ مارچ کا اعلان کردیا ۔ ایسے میں جنرل وحید کاکڑ نے شٹل ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات کو سیاسی طور پر حل کرنے میں مدد کی، گوکہ اس وقت کئی سیاست دانوں نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جائے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا ۔صدر اور وزیر اعظم نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ انتخابات کے بعد نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا اور بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔ ستمبر 1995میں ملٹری انٹیلی جنس نے فوج میں بغاوت کا ایک منصوبہ پکڑ لیا جس کی تیاری مکمل ہو چکی تھی۔40سے زائد فوجی افسران کے اس گروپ کا منصوبہ تھا کہ اعلیٰ ترین فوجی قیادت کو کور کمانڈرز کانفرنس کے دوران قتل کردیا جائے گا جب کہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کو قتل کر کے ملک میں اسلامی حکومت قائم کی جائے گی۔ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اس باغی گروپ کی سربراہی کر رہے تھے ۔تمام افراد کو گرفتار کر کے کورٹ مارشل کر دیا گیا۔جنر ل عبدالوحید کاکڑکی مدت ملازمت مکمل ہونے والی تھی،حکومت کی طرف سے جنرل وحید کو توسیع کی پیش کش بھی کی گئی جسے جنرل وحید کاکڑ نے مسترد کر دیا ۔        
1996-01-12
3496 Views
جنرل جہانگیر کرامت (بارہ جنوری ۱۹۹۶ء تا سات اکتوبر ۱۹۹۸ء)   جنرل کاکڑ کی سبک دوشی کے وقت جنرل جہانگیر کرامت ہی سب سے سینیئر جنرل تھے چنانچہ انھیں اگلا سپہ سالار بنا دیا گیا۔ جنرل جہانگیر کرامت 20 جنوری 1941ء و سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور انھوں نے 1961ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی ۔ 1965 میں انھوں نے اکھنور اور 1971ء میں شکر گڑھ کے محاذ پر خدمات انجام دیں۔ دورانِ ملازمت انھوں نے بین الاقوامی تعلقات اور وار اسٹڈیز میں ڈگریاں حاصل کیں۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں سٹرٹیجک سٹڈیز اور وار کالج میں ملٹری سائنس پڑھاتے رہے۔ 80 کی دہائی میں سعودی عرب میں فوجی مشیر بھی رہے۔ ان کی سپہ سالاری کے دوران صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ممکنہ برطرفی کی سن گن ملتے ہی جنرل جہانگیر کرامت نے مبینہ طور پر سپیکر قومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی کے ذریعے صدر اور وزیرِ اعظم کو پیغام بھیجا کہ باہمی اختلافات جتنی جلد دور کرلیں اتنا ہی جمہوریت کے لیے بہتر ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اختلافات جب ذاتیات تک پہنچ جائیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہوا۔ عبوری حکومت کے تحت انتخابات ہوئے۔ نواز شریف کو دوسری بار وزیرِ اعظم بننے کا موقع ملا۔ پھر جہانگیر کرامت کو سپہ سالاری کے ساتھ ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ بھی تفویض کردیا گیا۔ جب نواز شریف کی چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ٹھن گئی تو اس لڑائی میں جنرل جہانگیر کرامت نے غیر جانبداری برتی۔ انھی کے دور میں بھارت کے جوہری دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے۔ زندگی ٹھیک ہی چل رہی تھی کہ اکتوبر 1998 میں جنرل جہانگیر کرامت نے نیول وار کالج میں خطاب کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ ریاستی ڈھانچے کے استحکام کے لیے ترکی کی طرز پر نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نواز شریف حکومت اس تجویز سے یہ سمجھی کہ جنرل صاحب کے ارادے ٹھیک نہیں۔ چنانچہ ان سے استعفیٰ مانگ لیا گیا۔ پھر وہ امریکہ چلے گئے اور سٹینفورڈ یونیورسٹی اور بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے علمی و تحقیقی کاموں سے خود کو منسلک کرلیا۔ جنرل مشرف کے دور میں لگ بھگ دو برس واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر رہے۔ بعد ازاں اپنا تھنک ٹینک سپئیر ہیڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کر لیا۔      
1998-10-07
3903 Views
جنرل پرویز مشرف (سات اکتوبر ۱۹۹۸ء تا اٹھائیس نومبر ۲۰۰۷ء) جنرل جہانگیر کرامت کی سبک دوشی کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے منگلا کور کے کمانڈر پرویز مشرف کو دو جرنیلوں اوپر لیفٹٹنٹ جنرل علی قلی خان اور خالد نواز خان پر سپر سیڈ کرتے ہوئے پاکستان کی مسلح افواج کا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کردیا۔ جنرل پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔  اور انھوں نے 1965 اور 1971 دونوں جنگوں میں شرکت کی تھی۔ جس وقت جنرل پریز مشرف پاکستان کی بری فوج کے سربراہ بنے اس وقت وہ ایک گمنام سےکور کمانڈر تھے مگر جلد ہی وہ اخبارات کی سرخیوں میں نمایاں ہونے لگے۔ 1999 میں جب بھارتی وزیر اعظم واجپائی لاہور آئے تو جنرل پرویز مشرف نے انہیں سلامی دینے سے انکار کردیا۔ مئی 1999 میں ان کی قیادت میں پاک فوج نے کارگل کی چوٹیوں پر مہم آزمائی کی اور سیاچن گلیشئیر پر متعین بھرتی افواج کی رسد کا راستہ منقطع کردیا۔ امریکا نے کھل کر بھارت کا ساتھ دیا اور اس کے دباؤ پر پاکستان کو کارگل کی چوٹیاں خالی کرنی پڑیں۔ یہیں سے نواز شریف اور پرویز مشرف میں بد اعتمادی کا بیج پروان چڑھنے لگا۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ تیار کیا مگر اس سے قبل نواز شریف نے جنرل کو ان کے برطرف کرکے ھنرل ضیا الدین کو نیا آرمی چیف مقرر کردیا ۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف غیر ملکی دورے سے وطن واپس آرہے تھے، ان کے نائیبین نے فوری کارروائی کرکے پرویز مشرف کے طیارے کو پاکستان میں اترنے کو یقینی بنایا اور اسی دوران نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس کے بعد اگلے آٹھ برس تک جنرل پرویز مشرف ملک کے حکمران رہے۔ اور28 نومبر2007 تک بری افواج کے سربراہ کے منصب پر بھی فائز بھی رہے ۔         
2007-11-28
2648 Views
 جنرل اشفاق پرویز کیانی (اٹھائیس نومبر ۲۰۰۷ء تا انتیس نومبر ۲۰۱۳ء) 20 اپریل 1952 کو پیدا ہونے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی بری فوج کے پہلے سربراہ تھے جو پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئے۔ وہ پہلے سپاہ سالارتھے جنہیں آئی ایس آئی کی کمان کا براہِ راست تجربہ ہے۔ وہ پہلے کمانڈرتھے جنہوں نے اپنے عہدے کی پہلی مدت میں توسیع خود سے نہیں مانگی بلکہ ایک منتخب حکومت کی جانب سے توسیع چل کے آئی ۔ جنرل کیانی کو 1971 میں فوجی کمیشن ملا۔ انھوں نے کاکول کے علاوہ امریکی آرمی کے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج فورٹ بیننگ اور فورٹ لیون ورتھ سے بھی عسکری تجربہ حاصل کیا۔ ریاست ہوائی کے ایشیا پیسفک سینٹر سے سکیورٹی سٹڈیز کا کورس کیا۔ سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں مدرس رہے۔ پنڈی کی دسویں کور کو کمان کیا۔ اکتوبر 2004 میں انھیں آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔ اس دوران پاکستان میں امریکی ڈرون حملے شروع ہوئے۔ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد بڑھا۔ لال مسجد کا واقعہ ہوا۔ خودکش بمباروں کے پھٹنے کا چلن بکثرت پھیلا۔ بلوچستان میں شورش کا ایک اور باب کھلا۔ اکبر بگٹی قتل ہوئے۔ عدلیہ اور مشرف حکومت میں محاذ آرائی انتہا تک پہنچی۔ بےنظیر بھٹو سے مذاکرات میں جنرل کیانی نے مشرف حکومت کی نمائندگی کی۔ بےنظیر کو جنرل کیانی پر اس لیے بھی اعتماد تھا کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں ان کے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری رہ چکے تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اکتوبر 2007 میں آئی ایس آئی کی سربراہی سے سبک دوش ہونے کے بعد وائس چیف آف آرمی سٹاف بنائے گئے اور پھر دو ماہ بعد مکمل چیف آف آرمی سٹاف بنے ۔ جنرل کیانی کے دور میں لاپتہ افراد کے مسئلے میں مزید شدت پیدا ہوئی۔ ایبٹ آباد پر امریکی حملے نے پاکستان امریکہ تعلقات کو ابتر سطح پر لا کھڑا کیا۔ ریمنڈ ڈیوس کا سکینڈل ہوا۔ میمو گیٹ کھلا۔ وزیرستان اور سوات میں فوجی آپریشن ہوئے۔جنرل کیانی نے فوج کے بنیادی عسکری نظریے میں ترجیحاتی تبدیلی کی۔ یعنی بھارت کے بجائے پاکستان کا اولین دشمن دہشت گردی کو قرار دیا گیا ۔        
2013-11-29
2469 Views
جنرل راحیل شریف (انتیس نومبر ۲۰۱۳ء تا حال) پاکستان کی بری فوج کے پندرہویں سربراہ جنرل راحیل شریف 16 جون 1956 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک فوجی گھرانے سے ہے ۔ ان کے والد میجر محمد شریف تھے جبکہ ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید کو 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں نشان حیدر کا اعزاز عطا ہوا تھا۔ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں نشان حیدر حاصل کرنے والے میجر عزیز بھٹی شہید بھی ان کے قریبی عزیز تھے۔  راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج لاہور سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اس کے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے ۔ وہ اکیڈمی کے 54ویں لانگ کورس کے فارغ التحصیل ہیں- 1976 ء میں گریجویشن کے بعد، انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا- نوجوان افسر کی حیثیت سے انہوں نے انفنٹری بریگیڈ میں گلگت میں فرائض سرانجام دئیے- ایک بریگیڈیئر کے طور پر، انہوں نے دو انفنٹری بریگیڈز کی کمانڈ کی جن میں کشمیر میں چھ فرنٹیئر فورس رجمنٹ اور سیالکوٹ بارڈر پر 26 فرنٹیئر فورس رجمنٹ شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے کے دور میں میجر جنرل راحیل شریف کو گیارہویں انفنٹری بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کیا گیا- راحیل شریف ایک انفنٹری ڈویژن کے جنرل کمانڈنگ افسر اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ رہنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں- راحیل شریف نے اکتوبر 2010 سے اکتوبر 2012 تک گوجرانوالہ کور کی قیادت کی- انہیں جنرل ہیڈ کوارٹرز میں انسپکٹر جنرل تربیت اور تشخیص رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ 27 نومبر 2013 کو انھیں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے پاکستان کی مسلح افواج کا سربراہ مقرر کیا ۔ ذرائع کے مطابق راحیل شریف سیاست میں عدم دلچسپی رکھتے ہیں- انہیں دو سینئر جرنیلوں، لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم اور لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود پر فوقیت دی  گئی ۔ ایک سینئر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم نے اسی وجہ سے فوج سے استعفی دیا۔ ایک اور سینئر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کو بعد ازاں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی مقرر کر دیا گیا۔۔ جنرل راحیل شریف اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔        
UP