> <

1947-10-24
2770 Views
 آزاد کشمیر ٭24اکتوبر1947ء کو ہزاروں مسلح قبائلیوں نے کشمیر کے ڈوگرہ راجہ، مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف جہاد میں مظفرآباد تک رسائی حاصل کرلی اور وہاں آزاد کشمیر کی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا۔ اس اعلان میں کہا گیا تھا ’’چند ہفتے قبل، جموں و کشمیر کے عوام نے ڈوگرہ حکمرانوں کے ناقابل برداشت مظالم کے خاتمے اور ریاستی عوام کو خود مختار حکومت کا حق دلوانے کے لیے جو عبوری آزاد حکومت قائم تھی، وہ اب ریاست کے ایک بڑے حصے پر اپنی حکمرانی قائم کرچکی ہے۔ یہ حکومت توقع کرتی ہے کہ ڈوگرہ سرکار کے ماتحت باقی ماندہ علاقوں کو بھی جلد آزاد کروالیا جائے گا۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت کی تنظیم نو کی گئی ہے اور پونچھ کے ایک بیرسٹر ایٹ لا، سردار محمد ابراہیم خان کو اس عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔‘‘        
1949-03-12
7426 Views
1949 قراردادمقاصد ٭12 مارچ 1949ء کو  پاکستان کی مجلس دستور ساز نے وہ قرارداد مقاصد منظور کرلی جسے 7 مارچ 1949ء کو قائد ایوان لیاقت علی خان نے پیش کیا تھا۔ قرارداد مقاصد کا مسودہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے تیار کیا تھا۔ اس قرارداد میں پاکستان کے دستور کی بنیاد اور مملکت پاکستان کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔ 1985ء میں اس قرارداد کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ قرارداد مقاصد کے چند اہم نکات یہ تھے: 1: اسلامی نقطہ نگاہ سے حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور مملکت پاکستان کا اختیار حکمرانی‘ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک مقدس امانت ہے جسے جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیا جائے گا۔ 2: ملک کا نظام حکومت وفاق اورطرز حکومت شورائی ہوگا۔ 3: پاکستان میں آباد اقلیتوں کے جائز حقوق اور مذہبی اور ثقافتی آزادی کا پورا تحفظ کیا جائے گا۔ 4: عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ رکھا جائے گا۔ 5:  بنیادی حقوق کی پاسداری کی جائے گی اور نظام عدل مکمل طور پر محفوظ اور آزاد ہوگا تاکہ اہل پاکستان فلاح و خوشحالی کی زندگی بسر کرسکیں۔ اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز مقام حاصل کرسکیں اور امن عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی ترقی اور بہبود میں کماحقہ اضافہ کرسکیں۔  
1958-10-07
17302 Views
پاکستان میں مارشل لاء کا نفاذ ٭7 اکتوبر 1958ء کو پاکستان میں پہلا ملک گیر مارشل لاء نافذ ہوا۔ یہ مارشل لاء صدر اسکندر مرزا نے نافذ کیا تھا اور بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان ملک کے پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر مقرر ہوئے تھے۔  اکتوبر 1958ء تک ملک کے سیاسی حالات بد سے بدترین تک پہنچ چکے تھے۔ مرکز میں وزارتیں ٹوٹنا روز کا معمول بن چکا تھا۔ مغربی پاکستان میں ایک سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب اور مشرقی پاکستان میں اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر‘شاہد علی اسمبلی کے ارکان کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے۔ بقول ایوب خان ’’وہ لمحہ جس کا مدت سے انتظار تھا، آخر کار آن پہنچا تھا اور اب ’’ذمہ داری‘‘ سے جان چرانا ممکن نہیں رہا تھا۔‘‘ 7 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے‘ آئین کو منسوخ کرنے اور ملک میں مارشل لا نافذ کرکے ایوب خان کو اس کا منتظم اعلیٰ مقرر کرنے کا اعلان کردیا تاہم ملک کی صدارت بدستور اسکندر مرزا ہی کے پاس رہی۔ مگر ایوب خان مزید اختیارات چاہتے تھے چنانچہ 24 اکتوبر 1958ء کو انہیں ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ ایوب خان نے اسی دن اپنے نئے عہدے کا حلف اٹھایا اور نئی کابینہ کے ارکان کے ناموں کا اعلان کردیا۔ اس کابینہ میں جنرل ایوب خان کے علاوہ تین فوجی افسران لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان‘ لیفٹیننٹ جنرل واجد علی برکی اور لیفٹیننٹ جنرل کے ایم شیخ اور آٹھ سویلین وزرأ منظور قادر‘ ایف ایم خان‘ حبیب الرحمان‘ ابوالقاسم‘ حفیظ الرحمن‘ محمد شعیب‘ مولوی محمد ابراہیم اور ذوالفقار علی بھٹو شامل تھے۔ مگر ایوب خان اور اسکندر مرزا کے درمیان حائل خلیج مزید وسیع ہوتی گئی۔ تین دن بعد 27 اکتوبر 1958ء کو صبح کے وقت ایوب خان کی کابینہ نے اپنے عہدوں کے حلف اٹھائے اور اسی دن رات دس بجے ایوب خان کی ایما پر تین فوجی جرنیلوں واجد علی برکی‘ اعظم خان اور کے ایم شیخ نے بندوق کے زور پراسکندر مرزا سے ان کے استعفے پر دستخط کروالیے۔ ملک میں طاقت کے تمام منابع جنرل ایوب خان کے اختیار میں آچکے تھے۔      
1976-08-09
2747 Views
ذوالفقار علی بھٹو ٭ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی زبردست خواہش رکھتے تھے اس سلسلہ میں ایک جانب انہوں نے فرانس کے ساتھ ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ کی خریداری کا معاہدہ کیا اور دوسری جانب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے پاکستان بلاکر یورینیم کی افزودگی کے پلانٹ کی تعمیر کا آغاز کیا۔ بھٹو ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ عالم اسلام کو ایٹمی صلاحیت ضرور حاصل کرنی چاہئے۔ کمیونسٹ، عیسائی، یہودی اور ہندو سب نے ایٹم بم بنالیا ہے تو عالم اسلام کو ان کے برابر آنا چاہئے۔ چنانچہ جب مئی 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو بھٹو نے کہا ’’ہم گھاس کھاکر گزارا کرلیں گے۔ لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔‘‘ بھٹو کی یہ کوشش امریکا ہرگز برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ جب 1976ء میں یہودی نژاد امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستان کے دورے پر آئے تو 9 اگست 1976ء کو انہوں نے لاہور میں ایک عشائیہ میں بھٹو کو ایٹمی پلانٹ کے حصول سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ’’اگر تم ایٹمی پلانٹ کے ارادہ سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں عبرتناک مثال بنادیں گے۔‘‘ ان کے اپنے الفاظ یوں تھے: "We will make a horibble example of you"      
UP