> <

1862-11-07
7097 Views
بہادر شاہ ظفر کی وفات ٭7 نومبر1862ء ہندوستان کے آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر کی تاریخ وفات ہے۔ بہادر شاہ ظفر 24 اکتوبر 1775ء کو پیدا ہوئے تھے اور اپنے والد اکبر شاہ ثانی کی وفات کے بعد 29 ستمبر 1837ء کو تخت نشین ہوئے تھے، تاہم  اس وقت تک انگریز ہندوستان میں اپنے قدم مضبوطی سے جما چکے تھے اور مغل بادشاہ کا اقتدار فقط لال قلعے کی چہار دیواری تک ہی محدود تھا۔ 1857ء میں جب ہندوستان میں جنگ آزادی کا آغاز ہوا تو بہادر شاہ ظفر ہندوستان بھر کی حریت پسند تحریکوں کا مرکز نگاہ بن گئے اور انقلابیوں نے انہیں ہندوستان کا بادشاہ تسلیم کرلیا لیکن جب اس جنگ کے نتیجے میں انگریز فتح یاب ہوئے تو انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلاوطن کردیا جہاں انہوں نے 7 نومبر1862ء کو حالت جلاوطنی میں ہی وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔   کتنا ہے کم نصیب ظفر دفن کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں          
1893-05-07
10969 Views
ملک فیروز خان نون ملک فیروز خان نون 7  مئی 1893ءکو نون سرگودھا میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایچی سن کالج لاہور اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ 1920ءمیں وہ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور 1936ءتک مستقل رکن منتخب ہوتے رہے۔ 1936ءمیں وہ لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر مقرر ہوئے۔ 1941ءسے 1942ءتک وہ وائسرائے ہند کی کابینہ کے رکن رہے۔ 1942ءسے 1945ءتک وہ ہندوستان کے وزیر دفاع کے منصب پر فائز رہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ 1947ءسے 1953ءتک پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن اور 1953ءسے 1955ءتک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔ 1956ءسے 1957ءتک وہ پاکستان کے وزیر خارجہ اور 1957ءسے 1958ءتک وہ پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے۔وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے بعد ملک فیروز خان نون نے عمر کا بقیہ حصہ گوشہ گیری اور گمنامی میں گزارا اور 9 دسمبر 1970ءکو ایک طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پائی۔ملک فیروز خان نون کی خود نوشت سوانح عمری انگریزی میں فرام میموری اور اردو میں چشم دید کے نام سے شائع ہوچکی ہے-
1893-09-08
7821 Views
حسین شہید سہروردی حسین شہید سہروردی 8 ستمبر 1893ءکو بنگال کے شہر مدنا پور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل وہ سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1949ءمیں انہوں نے جناح عوامی لیگ کی بنیاد ڈالی جو بعد میں عوامی لیگ کے نام سے معروف ہوئی۔ 1950ءکی دہائی میں شروع شروع میں وہ قائد حزب اختلاف کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1956ءمیں جب پاکستان کا آئین منظور ہوا تو وہ ان چند افراد میں شامل تھے جنہوں نے بعض اصولوں کی بنیاد پر اس آئین پر دستخط نہیں کیے تھے لیکن بعد ازاں وہ اسی آئین کے تحت 12ستمبر 1956ء کو  ملک کے وزیر اعظم مقرر کیے گئے اور انہوں نے اس آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا۔ 1958ءمیں جب ایوب خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو سہروردی تن تنہا حزب اختلاف کی آواز بن گئے۔ حکومت نے ایبڈو کے کالے قانون کے تحت انہیں سیاسی طور پر نااہل قرار دینے کا مقدمہ چلایا مگر انہوں نے عدالت میں اپنے اوپر لگائے گئے ہر الزام کا بھرپور دفاع کیا اور حکومت کو اپنی فصاحت‘ بلاغت اور ذہانت و قابلیت سے زچ کیے رکھا۔ حکومت نے سہروردی کو ایبڈو کے قانون کے تحت سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا لیکن سہروردی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور سیاسی طور پر مسلسل متحرک رہے۔ انہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان‘ دونوں صوبوں کے طوفانی دورے کیے اور عوام کو مارشل لاءحکام کے عزائم سے آگاہ کیا۔ انہوں نے ایوب آمریت کے خلاف یہ جنگ تن تنہا لڑی۔ انہیں اس کا دکھ نہیں تھا کہ حکومت ان پر حملے کرکے ان سے ایبڈو کی پابندیاں منوانا چاہتی ہے بلکہ وہ دل گرفتہ اس بات سے تھے کہ سیاست دانوں کی اکثریت نے سیاسی جنگ میں ان کا ساتھ دینے سے پہلو تہی کرلیا تھا۔ 1963ءکے اوائل میں ان پر دل کا دورہ پڑا۔ وہ علاج کروانے کے لیے یورپ گئے اور پھر آرام کرنے کی غرض سے بیروت کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔ 5 دسمبر 1963ءکو نصف شب کے قریب ان کی حالت اچانک خراب ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ انہیں کوئی طبی امداد پہنچائی جاسکتی وہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوٹل ہی میں دم توڑ گئے۔ سہروردی کی میت وطن واپس لائی گئی جہاں 8 دسمبر 1963ءکو انہیں شیر بنگال مولوی فضل الحق کے پہلو میں دفن کیا گیا۔      
1894-07-19
5244 Views
خواجہ ناظم الدین ٭19 جولائی 1894ء پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی تاریخ پیدائش ہے۔  خواجہ ناظم الدین جدوجہد آزادی کے ممتاز رہنما اور قائد اعظم محمد علی جناح کے بااعتماد ساتھی تھے۔ وہ ڈھاکا میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ نواب سلیم اللہ کے بھانجے تھے جو آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔ خواجہ ناظم الدین نے مسلم یونیورسٹی‘ علی گڑھ اور کیمبرج یونیورسٹی‘ برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر سیاسی میدان میں داخل ہوئے۔ وہ ڈھاکا میونسپل کمیٹی کے چیئرمین‘ مجلس دستور ساز بنگال کے رکن اور متحدہ بنگال کے وزیر تعلیم‘ وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ کے مناصب پر فائز رہے۔ 1937ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور پھر تاعمر اسی جماعت سے منسلک رہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ 1948ء میں قائد اعظم کی وفات کے بعد انہیں پاکستان کا گورنر جنرل منتخب کیا گیا 1951ء میں جب لیاقت علی خان شہید ہوئے تو وہ پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ 1953ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے انہیں غیر آئینی طور پر برطرف کردیا جس کے بعد وہ دلبرداشتہ ہوکر سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ 1963ء میں ایک مرتبہ پھر سیاست کے میدان میں متحرک ہوئے۔ 1965ء کے صدارتی انتخابات کے لیے وہ بھی ایک ممکنہ امیدوار تھے مگر خود انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو امیدوار بنائے جانے کے لیے کوشش کی اور کامیاب رہے۔ ابھی یہ صدارتی مہم جاری تھی کہ 22 اکتوبر 1964ء کو حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔      
1895-08-29
6372 Views
ملک غلام محمد/گورنر جنرل ملک غلام محمد 29اگست 1895 ء کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ ایم اے ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کرنے بعد وہ انڈین آڈٹ اینڈ اکاونٹس کے محکمے میں شامل ہوئے جہاں انہوں نے مالیات کے بعض ایم عہدوں پر فرائض نبھائے۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ ریاست حیدرآباد میں وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پاکستان کی پہلی وفاقی کابینہ میں وزیر خزانہ کا منصب سنبھالا۔شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب خواجہ ناظم الدین نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے لیے گورنر کا عہدہ چھوڑا توملک غلام محمد پاکستان کے گورنر جنرل بنے۔ ان کا دورِ حکومت پاکستان میں بیوروکریسی کی سازشوں اور گٹھ جوڑ کا آغاز تھا۔ غلام محمد نے ہی طاقت کے حصول کے لیے بنگالی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے مشرقی پاکستان کے عوام میں مغربی پاکستان کے خلاف بداعتمادی کا بیج بویا۔ یہ برطرفی غلام محمد اور فوج کے سربراہ ایوب خان کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ممکن ہوسکی تھی کیونکہ صرف 2 ہفتے قبل ہی خواجہ ناظم الدین نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔اس برطرفی کو جب عدالت میں چیلنج کیا گیا تو اس کے نتیجے میں جسٹس منیر کا وہ بدنام زمانہ فیصلہ آیا جس نے پاکستان میں فوج اور بیوروکریسی کی سازشوں کا ایک نہ رکنے والا باب کھول دیا۔ جسٹس منیر نے فیصلے میں یہ احمقانہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان نے مکمل آزادی حاصل نہیں کی ہے اور اب بھی جزوی طور پر تاج برطانیہ کا حصہ ہے۔ اس رو سے دستور ساز اسمبلی گورنر جنرل کے ماتحت ہے اور گورنر جنرل کو اسے برخاست کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس مقدمے میں صرف ایک غیر مسلم جج جسٹس کارنیلیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان مکمل طور پر آزاد مملکت ہے اور دستور ساز اسمبلی ایک خودمختار ادارہ ہے جسے گورنر جنرل برطرف نہیں کرسکتا۔ اسی مقدمے میں جسٹس منیر نے بدنامِ زمانہ نظریہ ضرورت بھی متعارف کروایا۔ملک غلام محمد کی بیماری کے باعث اسکندر مرزا نے پہلے قائم مقام اور پھر مستقل گورنر جنرل کا منصب سنبھالا اور یوں 7، اکتوبر 1955 ء کو ملک غلام محمد کا ہنگامہ خیز دور حکومت اپنے انجام کو پہنچا۔ کوئی ایک برس بعد 29اگست 1956 ء کو ملک غلام محمد کراچی میں وفات پاگئے اور گورا قبرستان کراچی کے عقب میں فوجی قبرستان میں پیوندخاک ہوئے۔
1895-10-01
4281 Views
 قائد ملت لیاقت علی خان ٭یکم اکتوبر 1895ء پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کی تاریخ پیدائش ہے۔ وہ کرنال کے ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1918ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا اور 1922ء میں انگلستان سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وطن واپسی کے بعد انہوں نے سیاست میں فعال حصہ لینا شروع کیا۔ 1926ء میں وہ یو پی کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1933ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری مقرر ہوئے۔ قائداعظم انہیں اپنا دست راست (Right Hand)کہا کرتے تھے۔1946ء میں جب ہندوستان کی ایک عبوری کابینہ قائم کی گئی تو وہ اس میں وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس وزارت کے اہتمام میں انہوں نے ایک شاندار بجٹ پیش کیا جسے غریب کا بجٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد وہ اس نئی مملکت کے پہلے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شقی القلب شخص نے انہیں گولی مار کر شہید کردیا۔ انہیں قائد ملت اور شہید ملت کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔
1897-09-15
8156 Views
اسماعیل ابراہیم چندریگر اسماعیل ابراہیم چندریگر 15 ستمبر 1897ء کو احمدآباد میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے بمبئی یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکالت کے شعبے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور کچھ عرصے بعد مسلم لیگ کے ٹکٹ پر بمبئی کی مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے۔ 1940ء میں انہوں نے لاہور میں مسلم لیگ کے اس سالانہ اجلاس میں جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تقریر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1946ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے ہندوستان کی عبوری کابینہ کے رکن بنائے گئے اور قیام پاکستان کے بعد مرکزی وزیر تجارت و صنعت، افغانستان میں پاکستان کے سفیر اور صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب کے گورنر رہے۔ 18 اکتوبر 1957ء کو وہ پاکستان کے چھٹے وزیراعظم منتخب ہوئے مگر صرف 55 دن بعد 11 دسمبر 1957ء کو اس عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ اسماعیل ابراہیم چندریگر کا انتقال 26 ستمبر 1960کو لاہور میں ہوا ۔ وہ کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔    
1904-01-01
9016 Views
فضل الٰہی چوہدری /صدرِ پاکستان فضل الٰہی چوہدری یکم جنوری 1904ء کو مرالہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ تحریک پاکستان میں انہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور 1946ء میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پنجاب کے وزیر تعلیم اور وزیر صحت رہے۔ 1956ء میں وہ مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اس اسمبلی کے اسپیکر رہے۔ وہ 1962ء اور 1965ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1965ء سے 1969ء تک قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے۔ 1970ء میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر تیسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور پھر صدر پاکستان کے منصب پر منتخب ہوئے۔ اس آخری عہدے پر وہ 16 ستمبر 1978ء تک فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک مسلم لیگ سے وابستہ رہے اور 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ 1970ء کے عام انتخابات میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن اور 1972ء میں عبوری آئین کے نفاذ کے بعد اس اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ وہ 7 اگست 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 10 اگست 1973 ء کو وہ پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے ان کا مقابلہ نیشنل عوامی پارٹی کے امیدوار امیر زادہ خان سے تھا جنہیں ان کے 139 ووٹوں کے مقابلے میں صرف 45 ووٹ ملے۔۔ وہ پاکستان کے پہلے صدر تھے جن کا انتخاب 1973ء کے دستور کے تحت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان نے کیا تھا۔ فضل الٰہی چوہدری 16 ستمبر 1978ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ یکم جون 1982ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ مرالہ گوجرہ‘ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات میں آسودہ خاک ہیں۔
1907-05-14
18963 Views
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان وہ اپنی ذاتی یاداشتوں کے مطابق نومبر 1905ء میں اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق 14 مئی 1907ء کو ضلع ہزارہ کے گائوں ریحانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1922ء میں میٹرک کرنے کے بعد علیگڑھ چلے گئے۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد رائل ملٹری کالج سینڈ ہرسٹ (انگلستان) سے فوجی تعلیم حاصل کی اور 1928ء میں کمیشن حاصل کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جناب ایوب خان نے برما کے محاذ پر خدمات انجام دیں۔ 1947ء میں کرنل کے عہدے پر ترقی ملی‘ قیام پاکستان کے بعد انہیں بریگیڈیر بنا دیا گیا۔ دسمبر 1948ء میں وہ میجر جنرل بنا دئیے گئے اور ان کی تعیناتی مشرقی پاکستان کردی گئی۔ 1950ء میں وہ ایڈجیوٹنٹ جنرل (Adjutant  General) بنا ئے گئے اور 17 جنوری 1951ء کو پاکستان کی بری افواج کے پہلے پاکستانی اور مسلمان کمانڈر انچیف کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1954ء میں جب محمد علی بوگرہ نے گورنر جنرل کی دعوت پر نئی وزارت تشکیل دی تو اس میں سکندر مرزا اور ایوب خان کو بھی شامل کیا گیا۔ یوں جنرل ایوب خان پاکستان کے وزیر دفاع بن گئے۔ 1958ء میں جب ملک میں طوائف الملوکی اپنے عروج پر پہنچ گئی تو سکندر مرزا نے 8، اکتوبر 1958ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کردیا اور آئین کو معطل کردیا۔ جنرل ایوب خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پرفائز ہوئے۔ 24 اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان وزیر اعظم بنا دیے گئے لیکن فقط تین دن بعد 27 اکتوبر 1958ء کو انہوں نے صدر سکندر مرزا کو معزول کرکے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات سنبھال لیے۔ صدر ایوب خان نے نہایت تیزی سے ملکی صورتحال کو سنبھالا انہوں نے فوجی اسپرٹ سے رات دن کام کرکے ملک میں کئی مفید اصلاحات نافذ کیں اور معاشی اور معاشرتی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے انتظامی اور معاشی نظام میں انقلابی تبدیلیاں کیں۔ 27 اکتوبر 1959ء کو فوج نے صدر جنرل ایوب خان کو ملک کا اعلیٰ ترین فوجی عہدہ فیلڈ مارشل پیش کیا۔ اسی روز ملک میں بنیادی جمہوریت کا نظام نافذ کردیا گیا۔ 17 فروری 1960ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ 8 جون 1962ء کو انہوں نے مارشل لا کے خاتمے اور صدارتی طرز حکومت کے نئے آئین کے نفاذ کا اعلان کیا۔جنوری 1965ء میں ملک میں ایک مرتبہ پھر بنیادی جمہوریت کے نظام پر مبنی صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں ایوب خان نے کامیابی حاصل کی۔ ستمبر 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان پر جارحانہ حملہ کیا تو پوری قوم ایوب خان کی قیادت میں سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ حملہ آور پڑوسی ملک کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اقوام متحدہ کی مداخلت پر جنگ بندی ہوگئی۔ جنوری 1966ء میں تاشقند کے مقام پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس سے دونوں ملکوں کی افواج جنگ سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی گئیں۔ پاکستان کے عوام میں اس معاہدے سے بڑی بددلی پھیلی۔ 1968ء میں جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہدِ حکومت کو دس سال مکمل ہوئے اور ملک میں عشرہ اصلاحات منایا گیا تو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے ان کے خلاف تحریکِ جمہوریت کا آغاز کردیا۔ان کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں اور ہنگاموں کا آغاز ہوا۔ 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے ملک کی باگ ڈور جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردی اور خود سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔ 20 اپریل 1974ء کو انہوں نے اسلام آباد میں وفات پائی۔ انہیں تمام فوجی اعزازات کے ساتھ ان کے آبائی گائوں ریحانہ میں دفن کردیا گیا۔ ایوب خان مرحوم ایک قابل اور مدبر شخصیت تھے اگرچہ چند ماہرین سیاست اور دانشوروں کے نزدیک وہ ایک آمر مطلق تھے اور ان کا دور اور ان کا آئین غیر جمہوری قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ان کے عہد میں پاکستان نے نہ صرف معاشی اور صنعتی طور پر بے حد ترقی کی بلکہ ملک کی خارجہ پالیسی بھی غیر جانبدار اصول پر کاربند رہی جس سے دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بلند ہوگیا۔ایوب خان مرحوم نے اپنی سوانح عمری Friends not   Masters کے نام سے تحریر کی تھی جس کا اردو ترجمہ ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ذاتی ڈائریوں کے مندرجات بھی Diaries of Field Marshal Muhammad Ayub Khan (1966-72) کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔        
1917-02-04
10938 Views
جنرل آغا محمد یحییٰ خان جنرل آغا محمد یحییٰ خان پاکستان کی بری فوج کے تیسرے سربراہ اور تیسرے صدر مملکت تھے۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور صدارت میں انہیں 1966ء میں بری فوج کا سربراہ نامزد کیا۔ 1969ء میں ایوب خان کے استعفیٰ کے بعد عہدئہ صدارت بھی سنبھال لیا۔ یحییٰ خان کے یہ دونوں عہدے سقوط ڈھاکہ کے بعد 20 دسمبر 1971ء میں ختم ہوئے جس کے بعد انہیں طویل عرصے تک نظر بند بھی رکھا گیا۔ آغا محمد یحییٰ خان 4 فروری 1917ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ ان کے بیٹے علی یحییٰ کے بقول ان کے آبأ و اجداد 200 سال قبل براستہ افغانستان برصغیر میں آئے اور پشاور کو مسکن بنایا۔ یحییٰ خان کے خاندان کا تعلق قزلباش ذات سے ہے۔والد خان بہادر آغا سعادت علی خان انڈین پولیس میں ایک اعلی عہدیدار تھے۔ ابتدائی تعلیم گجرات سے حاصل کرنے کے بعد جامعہ پنجاب سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون چلے گئے۔ 1938ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران متعدد محاذوں پر خدمات انجام دیں۔ 1945ء میں اسٹاف کالج کوئٹہ سے کورس مکمل کرکے مختلف سٹاف عہدوں پر متمکن رہے۔ بعد ازاں سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف ڈویژنل ہیڈ کوارٹروں اور جنرل ہیڈ کوارٹر میں اعلی عہدوں پر فائز ہوئے۔ 1962ء میں مشرقی پاکستان کے گیریڑن آفیسر کمانڈنگ مقرر کیے گئے۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں نمایاں خد مات کے صلے میں ہلال جرأت کا اعزاز دیا گیا۔ ستمبر 1966ء میں جنرل محمد موسیٰ خان کے ریٹائر ہونے پر افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف مقرر ہوئے۔ نومبر 1968ء میں مخالف جماعتوں کے متحدہ محاذ نے ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی جس نے خوں ریز ہنگاموں کی شکل اختیار کر لی۔ مارچ 1969ء تک حکومت پر ایوب خان کی گرفت بہت کمزور ہو چکی تھی۔ 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا جس کے بعد یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے اگلے سال عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ 7 دسمبر 1970ء کو ملک بھر میں قومی اسمبلی اور 17 دسمبر 1970ء کوصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ جنہیں ملکی و غیر ملکی مبصرین نے پاکستان کی تاریخ میں پہلے آزادانہ و منصفانہ انتخابات قرار دیا۔ انتخابات کے بعد یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی میں پس و پیش سے کام لیا تو مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اور بھارت کی فوجی مداخلت کے باعث  16 دسمبر 1971ء کو ملک کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔ جنگ بندی کے بعدپاکستانی افواج کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنا پر ملک بھر میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ 20 دسمبر 1971ء کو جنرل یحییٰ نے اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا۔ 8 جنوری 1972ء کو انہیں، عوامی غیظ و غضب سے بچانے کے لیے نظر بند کر دیا گیا۔  1978 ء میں جنرل محمد ضیا الحق نے انہیں رہا کیا لیکن وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے اور 9  اگست 1980ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ وہ پشاور میں اپنے آ بائی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔
UP