> <

1893-07-31
5011 Views
محترمہ فاطمہ جناح ٭31 جولائی 1893ء مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی تاریخ پیدائش ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن تھیں مگر ایسی بہن‘ جس نے بھائی کے نصب العین کی خاطر اپنی زندگی تج دی تھی۔ ان کی زندگی کا فقط ایک مقصد تھا اور وہ یہ کہ ان کے عظیم بھائی نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اس میں کسی قسم کی رکاوٹ یا دشواری پیدا نہ ہو۔محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے عظیم بھائی کے دوش بدوش مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔ 1948ء میں جب قائد کا انتقال ہوا تو ان کا مشن آگے بڑھانے کا کام محترمہ فاطمہ جناح نے سنبھال لیا اور وہ ان مقاصد عالیہ کی روشنی کا مینار بن گئیں جن کے مطابق قائد اعظم پاکستان کی تعمیر کے خواہاں تھے۔ 1964ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح نے خود بھی صدارتی امیدوار کے طور پر بھرپور حصہ لیا مگر وہ سیاسی مشینری اور بیورو کریسی کی سازشوں کے ہاتھوں شکست کھا گئیں۔ ان انتخابات کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر سیاست سے کنارہ کش ہوگئیں اور 9 جولائی 1967ء کو وفات پاگئیں۔ وہ قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں آسودئہ خاک ہیں۔
1913-04-13
9233 Views
قاضی محمد عیسیٰ ٭ جدوجہد آزادی کے رہنما اور قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھی قاضی محمد عیسیٰ کی تاریخ پیدائش  13 اپریل 1913ء ہے۔ قاضی محمد عیسیٰ پشین (بلوچستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد قاضی جلال الدین ریاست قلات کے وزیراعظم تھے۔ قاضی عیسیٰ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی اور پھر لنکنزان (انگلستان) سے بارایٹ لاء کیا۔ وطن واپسی کے بعد کچھ عرصہ بمبئی میں پریکٹس کی جہاں ان کی ملاقات قائداعظم محمد علی جناح سے ہوئی۔ قائداعظم نے انہیں مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی اور بلوچستان میں مسلم لیگ کو منظم کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ 1940ء میں لاہور میں انہوں نے بلوچستان کے مسلمانوں کی جانب سے قرارداد پاکستان کی تائید میں تقریر کی۔ قائداعظم نے انہیں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا رکن نامزد کیا اور 1946ء کے انتخابات میں انہیں مسلم لیگ کے شعبہ نشرو اشاعت کا انچارج بنادیا۔ اس دوران قائداعظم جتنی مرتبہ بھی بلوچستان گئے، ان کی میزبانی قاضی محمد عیسیٰ نے کی۔ مئی 1947ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ، بلوچستان شاخ کے صدر منتخب ہوئے۔ انہی کی کوششوں سے بلوچستان کے شاہی جرگہ کے اراکین نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے انہیں بلوچستان میں گورنر جنرل کے ایجنٹ کا مشیر اعلیٰ مقرر کیا۔ چند سال بعد انہیں برازیل میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا۔قاضی محمد عیسیٰ نے اپنی پوری سیاسی زندگی، مسلم لیگ کے ساتھ گزاری، اپنے آخری زمانے میں وہ مسلم لیگ، قیوم گروپ کی بلوچستان شاخ کے صدر تھے۔19 جون 1976ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔  
1914-11-05
7360 Views
راجا صاحب محمود آباد ٭ تحریک پاکستان کے عظیم رہنما راجا امیر احمد خان راجا صاحب محمود آباد کی تاریخ پیدائش 5 نومبر 1914ء ہے۔ تحریک پاکستان کے جن رہنمائوں نے اس تحریک میں تن‘ من‘ دھن ہر طرح سے شرکت کی ان میں راجا صاحب محمود آباد‘ امیر احمد خان کا نام بلاشبہ سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ راجا صاحب محمود آباد کا تعلق یوپی کے ایک حکمران گھرانے سے تھا ان کے والد مہاراجا سر محمد علی خان یو پی کے مشہور ریاست محمود آباد کے والی تھے جہاں راجا امیر احمد خان5 نومبر 1914ء کو پیدا ہوئے۔ ایک تو خاندانی ماحول پھر پیسے کی فراوانی چنانچہ راجا امیر احمد خان کی تعلیم و تربیت بڑے اچھے پیمانے پر ہوئی‘ اور وہ بہت جلد اردو‘ انگریزی اور فارسی زبانوں کے عالم بن گئے۔ 23 مارچ 1931ء کو جب مہاراجا سر محمد علی خان کی وفات ہوئی تو راجا امیر احمد خان محمود آباد کے والی بن گئے‘ لیکن راجا صاحب کی درویش طبعیت اس منصب کے بار کو نہ اٹھا سکی اور وہ بہت جلد مسلمانوں کے قومی مسائل کے حل کے لیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں فعال حصہ لینے لگے۔ اس زمانے میں مسلم لیگ کو جب کبھی پیسے کی ضرورت پڑی راجا صاحب نے سب سے پہلے بڑھ کر اس ضرورت کو پورا کیا انہوں نے اپنی وسیع و عریض ریاست کی ساری آمدنی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے وقف کردی تھی۔ 1947ء میں جب پاکستان بنا تو راجا صاحب پاکستان چلے آئے انہیں متعدد مرتبہ وزارت اور سفارت کی پیشکش ہوئیں لیکن راجا صاحب نے ہمیشہ اس سے گریز کیا اور بغیر کسی منصب کے لالچ کیے ہمیشہ پاکستان کی خدمت کے کمربستہ رہے۔ عمر کے آخری حصے میں راجا صاحب انگلستان چلے گئے جہاں وہ اسلامک ریسرچ سینٹر سے وابستہ تھے۔ 14 اکتوبر 1973ء کو راجا صاحب نے لندن ہی میں انتقال کیا اور مشہد میں مدفون ہوئے۔          
1957-07-11
4529 Views
آغا خان سوم ٭11جولائی1957ء مسلمانوں کے اسماعیلی فرقے کے موروثی پیشوا اور تحریک پاکستان کے ایک عظیم رہنما ہزرائل ہائی نس سرسلطان محمد شاہ آغا خان سوم نے وفات پائی۔انہیں ان کی وصیت  کے مطابق مصر میں اسوان کے مقام پر دفن کیا گیا۔ سر آغا خان2نومبر1877ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ محض ایک مذہبی رہنما ہی نہیں تھے بلکہ اپنے زمانے کے ایک عظیم سیاستدان اور مدبر بھی تھے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ برصغیر پاک و ہند کی خوشحالی کے لئے عظیم خدمات انجام دیں بلکہ بین الاقوامی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ایک تھے اور1907ء سے1913ء تک اس کی صدارت پر فائز رہے تھے۔ انہی کی کوششوں سے ایم اے او کالج علی گڑھ کو یونیورسٹی کا درجہ ملا اور وہ اس یونیورسٹی کے پروچانسلر بھی رہے۔1930ء میں جب لندن میں گول میز کانفرنسوں کا آغاز ہوا تو سر آغا خان نے وہاں بھی مسلمانان برصغیر کی نمائندگی کی۔1937ء میں انہیں لیگ آف نیشنز کی جنرل اسمبلی کا صدر بھی منتخب کیا گیا تھا۔
1967-07-09
3565 Views
محترمہ فاطمہ جناح ٭9 جولائی 1967ء کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کراچی میں انتقال کرگئیں۔ محترمہ فاطمہ جناح قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن تھیں مگر ایسی بہن‘ جس نے بھائی کے نصب العین کی خاطر اپنی زندگی تج دی تھی۔ ان کی زندگی کا فقط ایک مقصد تھا اور وہ یہ کہ ان کے عظیم بھائی نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اس میں کسی قسم کی رکاوٹ یا دشواری پیدا نہ ہو۔محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے عظیم بھائی کے دوش بدوش مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔1948ء میں جب قائد کا انتقال ہوا تو ان کا مشن آگے بڑھانے کا کام محترمہ فاطمہ جناح نے سنبھال لیا اور وہ ان مقاصد عالیہ کی روشنی کا مینار بن گئیں جن کے مطابق قائد اعظم پاکستان کی تعمیر کے خواہاں تھے۔ 1964ء کے صدارتی انتخابات میںمحترمہ فاطمہ جناح نے خود بھی صدارتی امیدوار کے طور پر بھرپور حصہ لیا مگر وہ سیاسی مشینری اور بیورو کریسی کی سازشوں کے ہاتھوں شکست کھا گئیں۔ ان انتخابات کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر سیاست سے کنارہ کش ہوگئیں اور 9 جولائی 1967ء کو وفات پاگئیں۔ وہ قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔
1972-03-02
4807 Views
ڈاکٹر عافیہ صدیقی ٭2 مارچ 1972ء ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی تاریخ پیدائش ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ 1990ء میں وہ تعلیم کے حصول کے لئے امریکا گئیں۔ 1995ء میں انہوں نے ایم آئی ٹی سے اپنا گریجویشن مکمل کیا۔ 2001ء میں انہوں نے نیورو سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ مارچ 2003ء میں کراچی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نامی ایک خاتون کو القاعدہ کی مدد کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام تھا کہ وہ بوسٹن میں اپنے فلیٹ نیشنل بنک کے اکائونٹ سے ایک اسلامی خیراتی ادارے کی مدد کرتی رہی ہیں۔ یکم مارچ 2001ء کو جب القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد خالد شیخ محمد کو گرفتار کیا گیا تو اس نے ایف بی آئی کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے القاعدہ کی مدد کے لئے ایک پوسٹ بکس کرائے پر حاصل کیا ہے۔ ایف بی آئی نے اندازہ لگایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی القاعدہ کو مالی امداد فراہم کرنے والوں کے ساتھ رابطے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ اپریل 2003ء میں ایف بی آئی نے عافیہ صدیقی کی گرفتاری کی تصدیق کردی مگر یہ نہیں بتایا کہ انہیں کہاں قید رکھا گیا ہے۔ 7 جولائی 2008ء کو ایک نو مسلم برطانوی صحافی خاتون یوآن رڈلے(Yvonne Ridley) نے شبہ ظاہر کیا کہ عافیہ صدیقی بگرام میں قید ہیں اور وہ وہاں گرے لیڈی آف بگرام کے نام سے پہچانی جاتی ہیں اور ان کا کوڈ نیم قیدی 650 ہے۔ 4 اگست 2008ء کو امریکی حکام نے بگرام میں عافیہ صدیقی کی موجودی کی تصدیق کردی تاہم اس کے فوراً بعد انہیں امریکا منتقل کردیا گیا جہاں 3 فروری 2010ء کو ایک امریکی عدالت کی بارہ رکنی جیوری نے ان پر عائد الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے انہیں مجرم قرار دے دیا۔  
1973-07-16
5421 Views
علامہ ابن حسن جارچوی ٭16جولائی 1973ء کو ممتاز عالم دین اور تحریک پاکستان کے رہنما علامہ سید ابن حسن رضوی جارچوی  وفات پاگئے۔ وہ 21 مارچ 1904ء کو جارچہ ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے تھے ابھی پانچ برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا چنانچہ ان کی پرورش ان کے نانا نے کی۔ علامہ نے رام پور اورینٹل کالج سے مولوی فاضل اور منشی فاضل‘ میرٹھ سے انٹرنس‘ لاہور سے ایف اے‘ بی اے‘ ایم اے اور ایم او ایل اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کی سند حاصل کی۔ 1931ء سے 1938ء تک وہ جامعہ ملیہ کالج دہلی میں استاد رہے۔ 1938ء میں محمود آباد آگئے جہاں وہ راجہ صاحب محمود آباد کے اتالیق رہے۔ 1948ء سے 1951ء تک شیعہ ڈگری کالج لکھنو کے پرنسپل رہے پھر یکم اکتوبر 1951ء کو پاکستان چلے آئے۔ تحریک پاکستان کے دوران علامہ ابن حسن جارچوی مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے۔ وہ ان دو افراد میں سے ایک تھے جنہیں قائد اعظم نے کرپس مشن کے سامنے بڑے فخر کے ساتھ پیش کیا تھا کہ اس مشن کو تخلیق پاکستان کا دینی پس منظر سمجھا سکیں۔علامہ جارچوی نے پاکستان آنے کے بعد عملی سیاست کا سلسلہ بھی جاری رکھا‘ تحریر و تقریر سے بھی منسلک رہے اور تدریس کے شغل سے بھی وابستہ رہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں ’’شیعہ تھیالوجی‘‘ کے پہلے استاد تھے اور یہ شعبہ انہی کی کوششوں سے وجود میں آیا تھا۔ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے ’’انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے زمین بھی حاصل کرلی گئی تھی مگر عمر نے وفا نے کی ۔ علامہ ابن حسن جارچوی اسی انسٹیٹیوٹ کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔ علامہ نے متعدد کتابیں بھی یادگار چھوڑیں جن میں فلسفۂ آلِ محمد، بصیرت افروز مجالس‘ شہیدِ نینوا‘ جدید ذاکری‘ علی کاطرز جہانبانی اور مقدمہ فلسفۂ آلِ محمد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے زوال رومۃ الکبریٰ کے حصہ اسلام کو بھی اردو میں منتقل کیا تھا جو شائع ہوچکا ہے۔
1973-10-14
7360 Views
راجا صاحب محمود آباد ٭ تحریک پاکستان کے عظیم رہنما راجا امیر احمد خان راجا صاحب محمود آباد کی تاریخ پیدائش 5 نومبر 1914ء ہے۔ تحریک پاکستان کے جن رہنمائوں نے اس تحریک میں تن‘ من‘ دھن ہر طرح سے شرکت کی ان میں راجا صاحب محمود آباد‘ امیر احمد خان کا نام بلاشبہ سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ راجا صاحب محمود آباد کا تعلق یوپی کے ایک حکمران گھرانے سے تھا ان کے والد مہاراجا سر محمد علی خان یو پی کے مشہور ریاست محمود آباد کے والی تھے جہاں راجا امیر احمد خان5 نومبر 1914ء کو پیدا ہوئے۔ ایک تو خاندانی ماحول پھر پیسے کی فراوانی چنانچہ راجا امیر احمد خان کی تعلیم و تربیت بڑے اچھے پیمانے پر ہوئی‘ اور وہ بہت جلد اردو‘ انگریزی اور فارسی زبانوں کے عالم بن گئے۔ 23 مارچ 1931ء کو جب مہاراجا سر محمد علی خان کی وفات ہوئی تو راجا امیر احمد خان محمود آباد کے والی بن گئے‘ لیکن راجا صاحب کی درویش طبعیت اس منصب کے بار کو نہ اٹھا سکی اور وہ بہت جلد مسلمانوں کے قومی مسائل کے حل کے لیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں فعال حصہ لینے لگے۔ اس زمانے میں مسلم لیگ کو جب کبھی پیسے کی ضرورت پڑی راجا صاحب نے سب سے پہلے بڑھ کر اس ضرورت کو پورا کیا انہوں نے اپنی وسیع و عریض ریاست کی ساری آمدنی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے وقف کردی تھی۔ 1947ء میں جب پاکستان بنا تو راجا صاحب پاکستان چلے آئے انہیں متعدد مرتبہ وزارت اور سفارت کی پیشکش ہوئیں لیکن راجا صاحب نے ہمیشہ اس سے گریز کیا اور بغیر کسی منصب کے لالچ کیے ہمیشہ پاکستان کی خدمت کے کمربستہ رہے۔ عمر کے آخری حصے میں راجا صاحب انگلستان چلے گئے جہاں وہ اسلامک ریسرچ سینٹر سے وابستہ تھے۔ 14 اکتوبر 1973ء کو راجا صاحب نے لندن ہی میں انتقال کیا اور مشہد میں مدفون ہوئے۔          
1974-01-09
5563 Views
نواب صدیق علی خان ٭9 جنوری 1974ء کو پاکستان کی جدوجہد آزادی کے معروف رہنما نواب صدیق علی خان کراچی میں وفات پاگئے۔ نواب صدیق علی خان 1900ء میں ناگ پور میں نواب غلام محی الدین خان کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی ناگ پور ہی میں حاصل کی۔ 1935ء میں ناگ پور ہی سے مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے پولیٹیکل سیکریٹری مقرر ہوئے۔ 16 اکتوبر 1951ء کو نواب زادہ لیاقت علی خان نے آپ ہی کے ہاتھوں میں دم توڑا تھا۔ نواب صدیق علی خان خواجہ ناظم الدین‘ محمد علی بوگرہ اور حسین شہید سہروردی کے پولیٹیکل سیکریٹری رہے اور 1958ء میں سے 1961ء تک ایتھوپیا میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ نواب صدیق علی خان نے نوابزادہ لیاقت علی خان کی سوانح بے تیغ سپاہی کے نام سے تحریر کی تھی۔ وہ کراچی میں عالمگیر روڈ پر جامع مسجد‘ سی پی اینڈ برار ہائوسنگ سوسائٹی کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔  
1976-06-19
9233 Views
قاضی محمد عیسیٰ ٭ جدوجہد آزادی کے رہنما اور قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھی قاضی محمد عیسیٰ کی تاریخ پیدائش  13 اپریل 1913ء ہے۔ قاضی محمد عیسیٰ پشین (بلوچستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد قاضی جلال الدین ریاست قلات کے وزیراعظم تھے۔ قاضی عیسیٰ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی اور پھر لنکنزان (انگلستان) سے بارایٹ لاء کیا۔ وطن واپسی کے بعد کچھ عرصہ بمبئی میں پریکٹس کی جہاں ان کی ملاقات قائداعظم محمد علی جناح سے ہوئی۔ قائداعظم نے انہیں مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی اور بلوچستان میں مسلم لیگ کو منظم کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ 1940ء میں لاہور میں انہوں نے بلوچستان کے مسلمانوں کی جانب سے قرارداد پاکستان کی تائید میں تقریر کی۔ قائداعظم نے انہیں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا رکن نامزد کیا اور 1946ء کے انتخابات میں انہیں مسلم لیگ کے شعبہ نشرو اشاعت کا انچارج بنادیا۔ اس دوران قائداعظم جتنی مرتبہ بھی بلوچستان گئے، ان کی میزبانی قاضی محمد عیسیٰ نے کی۔ مئی 1947ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ، بلوچستان شاخ کے صدر منتخب ہوئے۔ انہی کی کوششوں سے بلوچستان کے شاہی جرگہ کے اراکین نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے انہیں بلوچستان میں گورنر جنرل کے ایجنٹ کا مشیر اعلیٰ مقرر کیا۔ چند سال بعد انہیں برازیل میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا۔قاضی محمد عیسیٰ نے اپنی پوری سیاسی زندگی، مسلم لیگ کے ساتھ گزاری، اپنے آخری زمانے میں وہ مسلم لیگ، قیوم گروپ کی بلوچستان شاخ کے صدر تھے۔19 جون 1976ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔  
UP