> <

1910-11-10
7926 Views
کیپٹن محمد سرور/نشان حیدر ٭ پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر حاصل کرنے والے پہلے سپوت کیپٹن محمد سرور  10 نومبر 1910ء کو موضع سنگھوری، تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1944ء میں وہ فوج میں شامل ہوئے۔ 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے، انہیں کشمیر آپریشن پر مامور کیا گیا۔ یہ 27 جولائی 1948ء کا واقعہ ہے جب ان کی بٹالین نے اڑی سیکٹر میں دشمن کی ایک اہم پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے کے دوران انہوں نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان شہادت نوش کیا۔ 1956ء میں جب پاکستان میں عسکری اور شہری اعزازات کا آغاز ہوا تو انہیں حکومت پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر دیئے جانے کا فیصلہ ہوا۔ 3 جنوری 1961ء کو یہ اعزاز ان کی بیوہ محترمہ کرم جان نے صدر پاکستان محمد ایو ب خان کے ہاتھوں وصول کیا۔ ٭ پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر حاصل کرنے والے پہلے سپوت کیپٹن محمد سرور کا یوم شہادت 27جولائی 1948ء ہے۔  
1914-07-22
11645 Views
میجر طفیل محمد شہید ٭ پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ حاصل کرنے والے دوسرے سپوت میجر طفیل محمد تھے۔ میجر طفیل محمد 22جولائی 1914ء  کو  مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے ۔1943ء میں انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا اور 1947ء میں جب وہ میجر کے عہدے تک پہنچ چکے تھے‘ وہ اپنے پورے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے اور یہاں فوج میں خدمات انجام دینے لگے۔ جون 1958ء میں میجر طفیل محمد کی تعیناتی ایسٹ پاکستان رائفلز میں ہوئی۔ اگست 1958ء کے اوائل میں انہیں لکشمی پور کے علاقے میں ہندوستانی اسمگلرز کا کاروبار بند کرنے کا حکم ملا۔ میجر طفیل محمد نے اپنی کارروائی کے لیے ایک منصوبہ بنایا اور 7اگست 1958ء کو دشمن کی چوکی کے عقب میں پہنچ کر فقط 15 گز کے فاصلے سے حملہ آور ہوئے۔ دشمن نے بھی جوابی کارروائی کی اور مشین گن سے فائرنگ شروع کردی۔ میجر طفیل چونکہ اپنی پلاٹون کی پہلی صف میں تھے اس لیے وہ گولیوں کی پہلی ہی بوچھاڑ سے زخمی ہوگئے تاہم وہ زخمی ہونے کے باوجود آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے ایک دستی بم پھینک کر دشمن کی مشین گن کو ناکارہ بنا دیا۔ جلد ہی دشمن سے دست بدست مقابلہ شروع ہوگیا۔ یہ مقابلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک پاکستان نے دشمن کو پسپا ہوکر بھاگنے پر مجبور نہ کردیا۔ دشمن اپنے پیچھے چار لاشیں اور تین قیدی چھوڑ گیا۔ اسی رات شدید زخمی ہونے کے باعث میجر طفیل اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ میجر طفیل کے اس غیر متزلزل جذبہ حب الوطنی‘ اعلیٰ درجے کے احساس فرض‘ شجاعت اور بلند ہمتی کے باعث انہیں پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ میجر طفیل محمد نے 7 اگست 1958ء کو جام شہادت نوش کیا تھا۔ 5 نومبر 1959ء کو صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کراچی میں ایوان صدر میں منعقد ہونے والے ایک خاص دربار میں میجر طفیل محمد کی صاحبزادی نسیم اختر کو یہ اعزاز عطا کیا۔ میجر طفیل محمد یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے دوسرے سپوت تھے۔
1923-08-06
9744 Views
راجہ عزیز بھٹی شہید پاکستان کے نامور سپوت راجہ عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر)  6 -اگست  1923ء کو ہانگ کانگ میں پیدا  ہوئے جہاں ان کے والد راجہ عبداللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گائوں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کررہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورتحال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجہ عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔ اسی دوران دشمن کے ایک ٹینک کا گولہ ان پر آن لگا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اس دن 12 ستمبر 1965ء کی تاریخ تھی۔ 26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو جنگ ستمبر میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔ ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغہ نشان حیدر تھا جو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔
1938-04-04
9502 Views
میجر محمد اکرم /نشان حیدر ٭5 دسمبر 1971ء کو پاکستان آرمی کے میجر محمد اکرم نے ہلّی ضلع دیناج پور مشرقی پاکستان کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا۔ میجر محمد اکرم 4 اپریل 1938ء کو ڈنگہ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدا میں وہ نان کمیشنڈ عہدے کے لئے منتخب ہوئے مگر پھر خصوصی امتحانات پاس کرنے اور ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کرنے کے بعد 13 اکتوبر 1963ء کو وہ بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ پاکستان آرمی کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے وابستہ ہوئے۔1965ء میں انہیں کیپٹن اور 1970ء میں میجر کے عہدے پر ترقی ملی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے ظفر وال سیکٹر میں خدمات انجام دیں۔ 7 جولائی 1968ء کو انہیں مشرقی پاکستان میں متعین کیا گیا۔1971ء کی جنگ کے آغاز کے وقت وہ ہلّی ضلع دیناج پور میں فرینٹیر فورس رجمنٹ کی ایک کمپنی کی قیادت کررہے تھے۔ انہوں نے دشمن کی فضائیہ‘ توپ خانے اور بکتربند دستوں کی لگاتار یلغار کی زد میں رہتے ہوئے دشمن کے ہر حملے کو روکے رکھا۔ انہوں نے دو ہفتے تک دشمن کو پاکستان کی سرزمین پر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھنے دیا اور بے مثال جرات و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آخردم تک لڑتے رہے۔ اس یادگار معرکے میں انہوں نے اپنے فرض کی تکمیل کے لیے جس انداز میں جان کا نذرانہ پیش کیا وہ ایک لازوال روایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ میجر محمد اکرم کی جرأت کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں ملک کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر عطا کیا۔ وہ بنگلہ دیش میں بوگرا کے مقام پر آسودۂ خاک ہیں۔ میجر محمد اکرام شہید کا نشان حیدر کا اعزاز 31 جنوری 1977ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ان کی والدہ مسماۃ احسان بی بی نے حاصل کیا۔      
1943-04-28
9218 Views
میجر شبیر شریف /نشان حیدر ٭28 اپریل 1943ء پاکستانی فوج کے نامور سپوت میجر شبیر شریف کی تاریخ پیدائش ہے۔ میجر شبیر شریف کنجاہ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ 19 اپریل 1964ء کو انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا اور فرنٹیر فورس رجمنٹ میں تعینات کیے گئے۔ 1965ء کو پاک بھارت جنگ میں انہیں ستارہ جرات عطا کیا گیا۔ 3 دسمبر 1971ء کو وہ سلیمانکی سیکٹر میں فرنٹیر فورس رجمنٹ کی ایک کمپنی کی قیادت کررہے تھے۔ ان کو ایک اونچے بند پر قبضہ کرنے کی مہم سونپی گئی جہاں سے دو گائوں گورمکھ کھیڑہ اور بیری والا زد میں آسکتے تھے۔ فوجی لحاظ سے اس جگہ کی بڑی اہمیت تھی اور اسی وجہ سے بھارت نے یہاں آسام رجمنٹ کی ایک کمپنی مامور کی تھی جسے ٹینکوں کے ایک اسکواڈرن کی مدد بھی حاصل تھی مطلوبہ پوزیشن تک پہنچنے کے لیے انہیں 30 فٹ چوڑی اور 10 فٹ گہری دفاعی نہر کو تیر کر عبور کرنا اور دشمن کے بارودی سرنگوں کے علاقے سے گزرنا تھا۔ مگر میجر شبیر شریف نے اپنی کمپنی کے ساتھ یہ تمام مرحلے طے کرلیے اور 3 دسمبر کی شام تک دشمن کو اس کی دفاعی قلعہ بندیوں اور خندقوں سے باہر نکال دیا۔ اس معرکے میں دشمن کے 43 سپاہی مارے گئے اور 4 ٹینک تباہ ہوئے۔ 5 اور6 دسمبر کی درمیانی شب میجر شبیر شریف نے آسام رجمنٹ کے کمپنی کمانڈر کو ہلاک کرکے اہم دستاویزات پر قبضہ کرلیا۔ 6 دسمبر کو دشمن نے ایک خوفناک جوابی حملہ کیا۔ اس حملے میں میجر شبیر شریف جو مسلسل دشمن پر فائرنگ کررہے تھے‘ شہید ہوگئے۔ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی اعلیٰ عسکری خدمات پر نشان حیدر کا اعزاز عطا کیا۔ میجر شبیر شریف لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ میجر شبیر شریف شہید کا نشان حیدر کا اعزاز 3 فروری  1977ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ان کی بیوہ  نے حاصل کیا۔  
1944-10-25
6941 Views
لانس نائیک محمد محفوظ/نشان حیدر ٭18 دسمبر 1971ء کو لانس نائیک محمد محفوظ نے واہگہ‘ اٹاری سرحد پر جام شہادت نوش کیا۔ وہ 25 اکتوبر 1944ء کو پنڈ ملکاں (موجودہ نام‘ محفوظ آباد) ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور اپنی اٹھارویں سالگرہ کے دن 25 اکتوبر 1962ء کو بری فوج میں شامل ہوئے۔ 1971ء کی جنگ کے وقت وہ واہگہ‘ اٹاری سیکٹر میں تعینات تھے۔ 16 دسمبر 1971ء کو جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو پاکستانی فوج نے اپنی کارروائیوں کو بند کردیا۔ دشمن نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور پل کنجری کا جو علاقہ پاکستانی فوج کے قبضے میں آچکا تھا واپس لینے کے لیے 17 اور 18 دسمبر کی درمیانی رات زبردست حملہ کردیا۔ پاکستانی فوج میں لانس نائیک محمد محفوظ کی پلاٹون نمبر 3 ہراول دستے کے طور پر سب سے آگے تھی چنانچہ اسے خود کار ہتھیاروں کا سامنا کرنا پڑا لانس نائیک محمد محفوظ بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ ایک مرحلے پر جب ان کی مشین گن دشمن کے ایک گولے کی ضرب سے تباہ ہوگئی تو وہ اپنے ایک شہید ساتھی کی مشین گن اٹھا کر دشمن کے اس مورچے کی طرف لپکے جہاں سے ہونے والی فائرنگ سے ان کی کمپنی کو مستقل نقصان پہنچ رہا تھا۔ اسی دوران ان کی مشین گن ہاتھ سے چھوٹ گئی تو انہوں نے ایک بھارتی سپاہی کو قابو کرکے اس کا گلا دبا کر ہلاک کرنا چاہا مگر ایک دوسرے بھارتی سپاہی نے سنگین مار کر انہیں شہید کردیا۔ حکومت پاکستان نے لانس نائیک محمد محفوظ کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر عطا کیا۔ وہ محفوظ آباد کے مقام پر آسودۂ خاک ہیں۔ لانس نائیک محمد محفوظ شہید کا نشان حیدر کا اعزاز 31 جنوری 1977ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ان کے والد مہربان خان نے حاصل کیا۔  
1948-07-27
7926 Views
کیپٹن محمد سرور/نشان حیدر ٭ پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر حاصل کرنے والے پہلے سپوت کیپٹن محمد سرور  10 نومبر 1910ء کو موضع سنگھوری، تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1944ء میں وہ فوج میں شامل ہوئے۔ 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے، انہیں کشمیر آپریشن پر مامور کیا گیا۔ یہ 27 جولائی 1948ء کا واقعہ ہے جب ان کی بٹالین نے اڑی سیکٹر میں دشمن کی ایک اہم پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے کے دوران انہوں نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان شہادت نوش کیا۔ 1956ء میں جب پاکستان میں عسکری اور شہری اعزازات کا آغاز ہوا تو انہیں حکومت پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر دیئے جانے کا فیصلہ ہوا۔ 3 جنوری 1961ء کو یہ اعزاز ان کی بیوہ محترمہ کرم جان نے صدر پاکستان محمد ایو ب خان کے ہاتھوں وصول کیا۔ ٭ پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر حاصل کرنے والے پہلے سپوت کیپٹن محمد سرور کا یوم شہادت 27جولائی 1948ء ہے۔  
1951-02-17
10073 Views
راشد منہاس ٭پاکستان کے نامورفرزند راشد منہاس کی تاریخ پیدائش 17 فروری 1951ء  ہے۔ راشد منہاس کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے سن پیٹرکس کالج کراچی سے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا اور پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1971ء میں وہ پائلٹ آفیسر بن گئے۔ یہ جمعہ 20 اگست 1971ء کا واقعہ ہے۔ پی اے ایف بیس مسرور پر صبح قریباً سوا گیارہ بجے پائلٹ آفیسر راشد منہاس اپنی دوسری سولو تربیتی پرواز پر روانہ ہوئے۔ ابھی ان کا طیارہ رن وے پر ہی تھا کہ اس کی نظر اپنے انسٹرکٹر مطیع الرحمن پر پڑی جو خطرے کا سگنل دے رہا تھا راشد منہاس نے انسٹرکٹر کے حکم کی تعمیل کی اور طیارہ روک لیا۔ مگر طیارہ رکتے ہی مطیع الرحمن جھپٹ کر طیارے میں سوار ہوگیا اور بیٹھتے ہی دوسرے کنٹرول کے ذریعے طیارے کے کنٹرول پر قابض ہوگیا۔ اس نے وائر لیس کے ذریعے کراچی میں اپنے دو دوستوں کو پیغام دیا کہ وہ طیارہ اغوا کرکے جودھ پور لے جارہا ہے وہ اس کے بیوی بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر ہندوستانی سفارت خانے پہنچا دیں تاکہ وہ وہاں پناہ لے سکیں۔ اس وقت مطیع الرحمن کے پاس چند اہم دستاویزات سے جو وہ ہندوستانی حکومت کو دینے جارہا تھا۔ راشد منہاس نے صورت حال کا اندازہ لگاتے ہی فوراً کنٹرول ٹاور کو اپنے طیارے کے اغوا کی اطلاع دی اور اغوا کی مزاحمت کرنا چاہی۔ مطیع الرحمن اس مرحلے کے لیے پہلے ہی تیار تھا اس نے اپنا کلوروفارم سے بھیگا ہوا رومال راشد منہاس کے منہ پر رکھ دیا اور طیارے کا رخ بھارت کی طرف کرلیا۔ اس کے پاس خفیہ رازوں پر مشتمل بہت سے کاغذات تھے جو اسے بھارتی حکومت کے حوالے کرنا تھے۔ ابھی طیارہ ٹھٹھہ کی حدود تک ہی پہنچا تھا کہ راشد منہاس کو ہوش آگیا طیارہ تیس چالیس فٹ کی بلندی پر پرواز کررہا تھا۔ اس لیے نہ ان دو طیاروں کو نظر آرہا تھا جو اس کی تلاش میں روانہ ہوئے تھے نہ ہی کسی ریڈار کی رینج میں تھا۔ 11 بج کر 33 منٹ پر راشد منہاس نے تیسری مرتبہ کنٹرول کو اغوا کا سگنل دیا ۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا ان کے اضطراب میں اضافہ ہورہا تھا۔ اچانک انہوںنے آخری فیصلہ کرلیا اور پوری طاقت سے وہ آلہ دبا دیا جو جہاز کو نیچے لاتا ہے۔ طیارہ ایک دھماکے کے ساتھ زمین سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا۔ اس کے شعلوں نے غدار مطیع الرحمن کو بھی خاک میں ملا دیا اور راشد منہاس کو بھی رتبہ شہادت پر فائز کردیا۔ 29 اگست 1971ء کو صدر پاکستان نے راشد منہاس پاکستان میں جرا ٔت اور شجاعت کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر عطا کرنے کا اعلان کیا۔وہ یہ عظیم اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے چوتھے فرزند تھے۔ ان کا یہ اعزاز 31 جنوری 1977ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ان کی والدہ مسز رشیدہ منہاس نے حاصل کیا۔
1958-08-07
11645 Views
میجر طفیل محمد شہید ٭ پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ حاصل کرنے والے دوسرے سپوت میجر طفیل محمد تھے۔ میجر طفیل محمد 22جولائی 1914ء  کو  مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے ۔1943ء میں انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا اور 1947ء میں جب وہ میجر کے عہدے تک پہنچ چکے تھے‘ وہ اپنے پورے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے اور یہاں فوج میں خدمات انجام دینے لگے۔ جون 1958ء میں میجر طفیل محمد کی تعیناتی ایسٹ پاکستان رائفلز میں ہوئی۔ اگست 1958ء کے اوائل میں انہیں لکشمی پور کے علاقے میں ہندوستانی اسمگلرز کا کاروبار بند کرنے کا حکم ملا۔ میجر طفیل محمد نے اپنی کارروائی کے لیے ایک منصوبہ بنایا اور 7اگست 1958ء کو دشمن کی چوکی کے عقب میں پہنچ کر فقط 15 گز کے فاصلے سے حملہ آور ہوئے۔ دشمن نے بھی جوابی کارروائی کی اور مشین گن سے فائرنگ شروع کردی۔ میجر طفیل چونکہ اپنی پلاٹون کی پہلی صف میں تھے اس لیے وہ گولیوں کی پہلی ہی بوچھاڑ سے زخمی ہوگئے تاہم وہ زخمی ہونے کے باوجود آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے ایک دستی بم پھینک کر دشمن کی مشین گن کو ناکارہ بنا دیا۔ جلد ہی دشمن سے دست بدست مقابلہ شروع ہوگیا۔ یہ مقابلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک پاکستان نے دشمن کو پسپا ہوکر بھاگنے پر مجبور نہ کردیا۔ دشمن اپنے پیچھے چار لاشیں اور تین قیدی چھوڑ گیا۔ اسی رات شدید زخمی ہونے کے باعث میجر طفیل اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ میجر طفیل کے اس غیر متزلزل جذبہ حب الوطنی‘ اعلیٰ درجے کے احساس فرض‘ شجاعت اور بلند ہمتی کے باعث انہیں پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ میجر طفیل محمد نے 7 اگست 1958ء کو جام شہادت نوش کیا تھا۔ 5 نومبر 1959ء کو صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کراچی میں ایوان صدر میں منعقد ہونے والے ایک خاص دربار میں میجر طفیل محمد کی صاحبزادی نسیم اختر کو یہ اعزاز عطا کیا۔ میجر طفیل محمد یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے دوسرے سپوت تھے۔
1965-09-12
9744 Views
راجہ عزیز بھٹی شہید پاکستان کے نامور سپوت راجہ عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر)  6 -اگست  1923ء کو ہانگ کانگ میں پیدا  ہوئے جہاں ان کے والد راجہ عبداللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گائوں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کررہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورتحال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجہ عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔ اسی دوران دشمن کے ایک ٹینک کا گولہ ان پر آن لگا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اس دن 12 ستمبر 1965ء کی تاریخ تھی۔ 26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو جنگ ستمبر میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔ ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغہ نشان حیدر تھا جو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔
UP