1949-03-14

نائیک سیف علی خان جنجوعہ ٭14 مارچ 1949ء کو حکومت آزاد جموں و کشمیر نے نائیک سیف علی خان جنجوعہ کو آزاد جموں و کشمیر کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہلال کشمیر دیئے جانے کا اعلان کیا۔ نائیک سیف علی خان جنجوعہ 25 اپریل 1922ء کو قندباز تحصیل نکیال آزاد جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ 18 مارچ 1941ء کو وہ برٹش انڈین آرمی میں رائل کور آف انجینئرز میں شامل ہوئے۔ 1947ء میں وہ اپنے وطن واپس آئے اور سردار فتح محمد کریلوی کی حیدری فورس میں شامل ہوگئے۔ یکم جنوری 1948ء کو حیدری فورس کو شیر ریاستی بٹالین کا نام دے دیا گیا اور اس کا کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل شیر خان کو بنایا گیا۔ اس بٹالین میں سیف علی خان جنجوعہ کو نائیک کو عہدہ دیا گیا اور انہیں بدھا کھنہ کے مقام پر دشمن سے دفاع کا حکم دیا گیا جہاں وہ 26 اکتوبر 1948ء کو شہید ہوگئے۔ 14 مارچ 1949ء کو حکومت آزاد جموں و کشمیر کی ڈیفنس کونسل نے انہیں بعدازمرگ ہلال کشمیر کا اعزاز دیئے جانے کا اعلان کیا۔ یہ حکومت آزاد جموں و کشمیر کا سب سے بڑا عسکری اعزاز ہے۔ 30 نومبر 1995ء کوحکومت پاکستان نے ہلال کشمیر کو پاکستان کے سب سے بڑے عسکری اعزاز نشان حیدر کے مساوی تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔
1971-03-08

صوبیدار خداداد خان ٭8 مارچ 1971ء کو وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والے برصغیر کے پہلے شخص صوبیدار خدادادخان کا انتقال ہوا۔ وکٹوریہ کراس برطانیہ کا سب سے بڑا عسکری اعزاز ہے۔ یہ اعزاز 1857ء میں قائم ہوا تھا۔ 1911ء میں دربار دہلی کے موقع پر شاہ برطانیہ جارج پنجم نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ اگر ہندوستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی کوئی قابل رشک کارنامہ انجام دیں گے تو وہ بھی وکٹوریہ کراس کا اعزاز حاصل کرسکیں گے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران برصغیر پاک و ہند کے بہت سے سپاہیوں نے یورپ کے مختلف محاذوں پر عسکری خدمات انجام دیں اور متعدد اعزازات حاصل کیے۔ انہی میں سے ایک سپاہی خداداد خان تھے جو موضع ڈھب تحصیل چکوال ضلع جہلم کے رہنے والے تھے۔ ان کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا اس وقت نمبر 129 ڈیوک آف کناٹس اون بلوچیز کہلاتی تھی اور کراچی میں تعینات تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران سپاہی خداداد خان کو فرانس جانے کا حکم ملا وہ 24 اگست 1914ء کو سمندر کے راستے کراچی سے روانہ ہوئے اور 29 ستمبر کو فرانس کی بندرگاہ مارسیلز پر پہنچے جہاں انہیں ہولی بیک کے محاذ جنگ پر تعینات کیا گیا۔ یہ 13 اکتوبر 1914ء کا واقعہ ہے جب سپاہی خداداد خان کے دستے کا کمان آفیسر دشمن کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوگیا اور مشین گن چلانے والے پانچ سپاہی بھی یکے بعد دیگرے مارے گئے‘ ایسے میں سپاہی خداداد خان زخمی ہونے کے باوجود نہایت استقلال سے اپنی مشین گن چلاتے رہے۔ اس معرکے میں 7 برطانوی اور 5 ہندی افسران اور 124 فوجی مارے گئے۔ 64 بے پتا ہوئے جو مارے ہوئے تصور کیے گئے۔ سپاہی خداداد خان کے اس کارنامے کے اعتراف کے طور پر حکومت برطانیہ نے 31 اکتوبر 1914ء کو انہیں برطانیہ کا سب سے بڑا عسکری اعزاز وکٹوریہ کراس دینے کا اعلان کیا۔ وکٹوریہ کراس ملنے کے بعد سپاہی خداداد خان کو صوبیدار خداداد خان بنا دیا گیا۔ صوبیدار خداداد خان نے 8 مارچ 1971ء کو سی ایم ایچ راولپنڈی میں وفات پائی اور ضلع منڈی بہائو الدین کے گائوں رکن میں اپنی زمینوں پر دفن ہوئے۔
1993-01-08

جنرل آصف نواز ٭8 جنوری 1993ء کو بری فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے کے باعث اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ چند یوم قبل 3 جنوری 1993ء کو انہوں نے اپنی 56 ویں سالگرہ منائی تھی۔ 8 جنوری کو اپنے روزمرہ کے معمول کے مطابق انہوں نے اپنی رہائش گاہ میں اپنے کمرہ میں ایکسر سائز سائیکلنگ شروع کی۔ اس ورزش کے دوران انہیں سینے میں درد کی شکایت ہوئی۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے سات گھنٹے تک ان کی جان بچانے کی جدوجہد کی مگر شام 3 بجکر 56 منٹ پر وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ جنرل آصف نواز ایک پیشہ ور فوجی افسر تھے۔ ان کی موت کا دکھ پورے پاکستان میں محسوس کیا گیا۔ جنرل آصف نواز کی وفات کے کوئی تین ماہ بعد ان کی بیوہ بیگم نزہت آصف نواز نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ان کے شوہر کو سلو پوائزن دے کر قتل کیا گیا ہے اور اس قتل کے ذمہ دار حکمران بالخصوص چوہدری نثار علی اور بریگیڈیئر امتیاز ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے ان الزامات کا فوری نوٹس لیا اور اگلے ہی دن جسٹس شفیع الرحمن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ایک خصوصی جوڈیشل کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن سے کہا گیا کہ وہ الزامات کے صحیح ہونے کا جائزہ لے اور موت کی اصل وجہ کا تعین کرے۔ 14 مئی 1993ء کو اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل آصف نواز کی موت کو طبعی قرار دیا۔ جب جناب معین قریشی نگراں وزیراعظم بنے تو جنرل آصف نواز کی موت کا مسئلہ پھر سے اٹھایا گیا۔ چنانچہ یکم اکتوبر 1993ء کو جنرل آصف نواز کی نعش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا 13 دسمبر 1993ء کو حکومت پاکستان کے ایک سرکاری ترجمان نے پوسٹ مارٹم کی رپورٹوں کی روشنی میں اعلان کیا کہ جنرل آصف نواز کی وفات زہر خورانی سے نہیں بلکہ ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے۔ اس اعلان کے بعد ان کی موت کی تفتیش ختم کردی گئی۔