1528-02-07

میر محمد معصوم شاہ بکھری ٭سندھ کے ایک مشہور عالم مؤرخ اور ادیب میر محمد معصوم شاہ بکھری کی تاریخ پیدائش 7 فروری 1528ء مطابق 7 رمضان 944ہجری ہے۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری تعلیم کے حصول کے اکبر اعظم کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں ان کی ملاقات عبدالرحیم خان خاناں سے ہوئی۔ اکبر اعظم نے آپ کو ایران میں سلطنت مغلیہ کا سفیر مقرر کیا جبکہ جہانگیر نے آپ کو امین الملک کا خطاب عطا کیا۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری ایک بلند پایہ مؤرخ اور شاعر تھے۔ شاعری میں وہ نامی تخلص کرتے تھے۔ انہوں نے سندھ کی ایک تاریخ ، تاریخ معصومی کے نام سے تحریر کی جو آج بھی سندھ کی ایک سند تاریخ تسلیم کی جاتی ہے۔ آپ نے سکھر کی مشہور عمارت میر معصوم شاہ بکھری کا مینار بھی تعمیر کروایا۔ اس مینار کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کی بلندی بھی 84 فٹ ہے بنیادوں پر اس کا قطر بھی 84 فٹ ہے اور اس کی سیڑھیوں کی تعداد بھی 84 ہے۔ اس مینار کی بنیاد میر محمد شاہ معصوم شاہ بکھری نے رکھی تھی لیکن اس کی تکمیل اس کے بیٹے میر بزرگ نے کروائی۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری نے 14 اپریل 1606ء مطابق 6 ذی الحجہ 1014 ہجری کو وفات پائی۔ آپ کا مزار آپ کے نام سے موسوم مینار سے ملحقہ قبرستان میں واقع ہے۔
1606-04-14

میر محمد معصوم شاہ بکھری ٭سندھ کے ایک مشہور عالم مؤرخ اور ادیب میر محمد معصوم شاہ بکھری کی تاریخ پیدائش 7 فروری 1528ء مطابق 7 رمضان 944ہجری ہے۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری تعلیم کے حصول کے اکبر اعظم کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں ان کی ملاقات عبدالرحیم خان خاناں سے ہوئی۔ اکبر اعظم نے آپ کو ایران میں سلطنت مغلیہ کا سفیر مقرر کیا جبکہ جہانگیر نے آپ کو امین الملک کا خطاب عطا کیا۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری ایک بلند پایہ مؤرخ اور شاعر تھے۔ شاعری میں وہ نامی تخلص کرتے تھے۔ انہوں نے سندھ کی ایک تاریخ ، تاریخ معصومی کے نام سے تحریر کی جو آج بھی سندھ کی ایک سند تاریخ تسلیم کی جاتی ہے۔ آپ نے سکھر کی مشہور عمارت میر معصوم شاہ بکھری کا مینار بھی تعمیر کروایا۔ اس مینار کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کی بلندی بھی 84 فٹ ہے بنیادوں پر اس کا قطر بھی 84 فٹ ہے اور اس کی سیڑھیوں کی تعداد بھی 84 ہے۔ اس مینار کی بنیاد میر محمد شاہ معصوم شاہ بکھری نے رکھی تھی لیکن اس کی تکمیل اس کے بیٹے میر بزرگ نے کروائی۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری نے 14 اپریل 1606ء مطابق 6 ذی الحجہ 1014 ہجری کو وفات پائی۔ آپ کا مزار آپ کے نام سے موسوم مینار سے ملحقہ قبرستان میں واقع ہے۔
1611-01-21

محمد قلی قطب شاہ ٭ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کا انتقال 21 جنوری 1611ء کو ہوا تھا۔ محمد قلی قطب شاہ جنوبی ہند کے گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان کے سب سے ممتاز بادشاہ تھے۔ وہ 1565ء میں پیدا ہوئے تھے اور 1580ء میں اپنے والد ابراہیم قلی قطب شاہ کی وفات پرتخت نشین ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی محبوبہ بھاگ متی کے نام پر ایک شہر بھاگ نگر آباد کیا مگر کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے حضرت علی ؑ کے نام پر اس شہر کا نام حیدرآباد رکھ دیا۔ محمد قلی قطب شاہ کو فن تعمیر سے خاص دلچسپی تھی اور انہوں نے حیدرآباد میں کئی مشہور عمارتیں تعمیر کروائیں۔ وہ فارسی ، دکنی ، تلنگی اور اردو زبان میں شاعری کرتے تھے۔ انہیں اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تسلیم کیا جاتا ہے ان کے دیوان کو ان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے اور جانشین سلطان محمد قطب شاہ نے مرتب کیا تھا اور اسے 1941ء ڈاکٹر محی الدین زور نے جدید ترتیب کے ساتھ شائع کیا تھا۔
1720-12-05

مرزا عبدالقادر بیدل ٭5 دسمبر1720ء مطابق 4 صفر1133 ہجری فارسی کے عظیم شاعر ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل کی تاریخ وفات ہے۔ مرزا عبدالقادر بیدل 1644ء میں عظیم آباد پٹنہ میں پیدا ہوئے اور عمر کا بیشتر حصہ وہیں بسر کیا۔ تصوف سے بڑی رغبت تھی۔ سلوک و معرفت کے سلسلے میں جن شخصیات سے فیض حاصل کیا ان میں میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی کے نام قابل ذکر ہیں۔ وہ ابتدا میں رمزی تخلص کرتے تھے بعدازاں انہوں نے اسے بدل کر بیدل کرلیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیط اعظم، عرفان، طلسم حیرت، طور معرفت، گل زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ مرزا عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں فارسی کے عظیم شعرا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے غزلیات، مثنویوں،قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے تھے۔ غالب اور اقبال ان سے بے حد متاثر تھے۔ غالب کا ایک مشہور شعر ہے: طرز بیدل میں ریختہ کہنا اسد اللہ خاں قیامت ہے وہ دہلی میں آسودۂ خاک ہیں۔
1797-12-27

مرزا اسد اللہ غالب ٭27 دسمبر 1797ء اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب کی تاریخ پیدائش ہے۔ مرزا غالب آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آبائو اجداد کا پیشہ تیغ زنی اور سپہ گری تھا۔ انہوں نے اپنا پیشہ انشاء پردازی اور شعر و شاعری کو بنایا اور ساری عمر اسی شغل میں گزار دی۔ 13 برس کی عمر میں، دہلی کے ایک عظیم دوست گھرانے میں شادی ہوئی اور یوں غالب دلی چلے آئے جہاں انہوں نے اپنی ساری عمر بسر کردی۔ غالب نے اپنی زندگی بڑی تنگدستی اور عسرت میں گزاری مگر کبھی کوئی کام اپنی غیرت اور خودداری کے خلاف نہ کیا۔ 1855ء میں ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے جن کے دربار سے انہیں نجم الدولہ دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔ جب 1857ء میں بہادر شاہ ظفر قید کرکے رنگون بھیج دیئے گئے تو وہ نواب یوسف علی خاں والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔ غالب فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے عظیم شاعر تھے جتنی اچھی شاعری کرتے تھے اتنی ہی شاندار نثر لکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی ایک نئے اسلوب کی بنیاد رکھی۔ غالب سے پہلے خطوط بڑے مقفع اور مسجع زبان میں لکھے جاتے تھے انہوں نے اسے ایک نئی زبان عطا کی اور بقول انہی کے ’’مراسلے کو مکالمہ بنادیا‘‘۔ 15 فروری 1869ء کو مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور ……٭٭٭…… ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا، پایا
1830-06-05

محمد حسین آزاد ٭ اردو کے نامور انشا پرداز ،شاعر،نقاد، مؤرخ اور ماہر تعلیم محمد حسین آزاد 5جون 1830ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی محمد باقر اردو کے پہلے اخبار نویس تسلیم کیے جاتے ہیں ، انہیں 1857ء کی جنگ آزادی میںانگریزوں نے گولی سے اڑا دیا تھا۔ محمد حسین آزاد نے دہلی کالج سے تعلیم حاصل کی اور شاعری میں استاد ابراہیم ذوق کے شاگرد ہوگئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد وہ لاہور پہنچے اور محکمہ تعلیم میں ملازم ہوگئے۔ 1869ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور 1984ء میں اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہوئے۔ 1887ء میں انہیں حکومت شمس العلما کا خطاب عطا کیا۔ اسی دوران 1865ء میں انہوں نے انجمن پنجاب قائم کی اور لاہور میں جدید شاعری کی تحریک کی شمع روشن کی۔ اس انجمن کے اہتمام میں انہوں نے نئے طرز کے مشاعروں کی بنیاد ڈالی جس میں مصرع طرح کی بجائے عنوانات پر نظمیں پڑھی جاتی تھیں۔ 1889ء میں بیٹی کی وفات کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اور اسی عالم میں 22 جنوری 1910ء کو وفات پاگئے۔ آپ لاہور میں کربلا گامے شاہ کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔ مولانا محمد آزادی کی تصانیف میں آب حیات، نیرنگ خیال، سخن دان فارس، دربار اکبری، جانورستان، قصص ہند اور نگارستان کے نام سرفہرست ہیں۔
1869-02-15

مرزا غالب ٭15 فروری 1869ء اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب کی تاریخ وفات ہے۔ مرزا غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آبائو اجداد کا پیشہ تیغ زنی اور سپہ گری تھا۔ انہوں نے اپنا پیشہ انشاء پردازی اور شعر و شاعری کو بنایا اور ساری عمر اسی شغل میں گزار دی۔ 13 برس کی عمر میں، دہلی کے ایک عظیم دوست گھرانے میں شادی ہوئی اور یوں غالب دلی چلے آئے جہاں انہوں نے اپنی ساری عمر بسر کردی۔ غالب نے اپنی زندگی بڑی تنگدستی اور عسرت میں گزاری مگر کبھی کوئی کام اپنی غیرت اور خودداری کے خلاف نہ کیا۔ 1855ء میں ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے جن کے دربار سے انہیں نجم الدولہ دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔ جب 1857ء میں بہادر شاہ ظفر قید کرکے رنگون بھیج دیئے گئے تو وہ نواب یوسف علی خاں والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔ غالب فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے عظیم شاعر تھے جتنی اچھی شاعری کرتے تھے اتنی ہی شاندار نثر لکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی ایک نئے اسلوب کی بنیاد رکھی۔ غالب سے پہلے خطوط بڑے مقفع اور مسجع زبان میں لکھے جاتے تھے انہوں نے اسے ایک نئی زبان عطا کی اور بقول انہی کے ’’مراسلے کو مکالمہ بنادیا‘‘۔ 15 فروری 1869ء کو مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور ……٭٭٭…… ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا، پایا
1874-03-15

سر شیخ عبدالقادر ٭9 فروری 1950ء اردو کے عظیم محسن اور معروف ماہر قانون سرشیخ عبدالقادرکی تاریخ وفات ہے۔ سر شیخ عبدالقادر15مارچ 1874ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ سرسید احمد خان کی تحریک سے مسلمان نوجوانوں کا جو گروہ پیدا ہوا تھا سر شیخ عبدالقادر اس میں پیش پیش تھے۔1898ء میں وہ پنجاب کے پہلے انگریزی اخبار آبزرور کے مدیر ہوئے اور 1901ء میں انہوں نے اردو کا ادبی جریدہ مخزن جاری کیا۔ دنیائے ادب میں مخزن کو یہ اختصاص حاصل ہوا کہ علامہ اقبال کی بیشتر نظمیں پہلی مرتبہ مخزن ہی میں شائع ہوئی تھیں۔علامہ اقبال کے پہلے اردو مجموعہ کلام بانگ درا کا دیباچہ سرشیخ عبدالقادر ہی نے لکھا تھا۔ 1904ء میں سرشیخ عبدالقادر بیرسٹری کے لیے انگلستان روانہ ہوئے۔ 1907ء میں انہوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا پہلے دہلی پھر لاہور میں وکالت کی۔ 1921ء میں ہائی کورٹ کے جج اور 1935ء میں پنجاب کے وزیر تعلیم بنے۔ 1939ء میں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن اور 1942ء میں بہاولپورکے چیف جج بن گئے۔ سر شیخ عبدالقادر لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1877-11-09

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ٭ ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1899ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور پھر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ 1905ء میں وہ یورپ چلے گئے جہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وطن واپسی کے بعد آپ وکالت کے پیشے سے کل وقتی طور پر وابستہ ہوگئے۔ علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز زمانۂ طالب علمی ہی سے ہوچکا تھا۔ ابتدا میں انہوں نے داغ دہلوی سے اصلاح لی۔ 1910ء کی دہائی میں آپ نے شکوہ، جواب شکوہ، شمع اور شاعر اور خضر راہ جیسی یادگار نظمیں تحریر کیں۔ اسی زمانے میں آپ کی فارسی مثنویاں اسرار خودی اور رموز بے خودی شائع ہوئی۔ 1922ء میں حکومت برطانیہ نے آپ کو سر کا خطاب عطا کیا۔ 1930ء میں آپ نے الٰہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے جو خطبہ دیا اس میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ پیش کیا جس کا نتیجہ بالآخر قیام پاکستان کی صورت میں برآمد ہوا۔ علامہ سر محمد اقبال کا انتقال 21 اپریل 1938ء کو لاہور میں ہوا۔ آپ کو بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے پاس سپرد خاک کیا گیا۔ علامہ اقبال کے شعری مجموعوں میں بانگ درا، ضرب کلیم، بال جبرئیل، اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، پس چے چہ باید کرد اے اقوام شرق اور ارمغان حجاز کے نام شامل ہیں۔ انہیں بیسویں صدی کا سب سے بڑا اردو شاعرتسلیم کیا جاتا ہے۔
1884-12-28

نیاز فتح پوری ٭ اردو کے نامور ادیب‘ نقاد‘ محقق‘ مترجم‘ مورخ‘ صحافی اور ماہر لسانیات علامہ نیاز فتح پوری 28 دسمبر1884ء کو فتح پور‘ سہوہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1922ء میں انہوں نے ایک ادبی جریدہ نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں اردو میں روشن خیالی کا مظہر بن گیا۔ علامہ نیاز فتح پوری قریباً 35 کتابوں کے مصنف تھے جن میں من و یزداں‘ نگارستان‘ شہاب کی سرگزشت‘ جمالستان اور انتقادیات کے نام سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی سینکڑوں تحریریں‘ نگار میں شائع ہوئیں جنہوں نے اردو میں نت نئے مباحث کو جنم دیا۔ بھارت نے انہیں ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز پدمابھوشن عطا کیا تھا۔ ٭24 مئی 1966ء کو علامہ نیاز فتح پوری کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔