> <

1926-09-15
6488 Views
اجمل خٹک ٭پاکستان کے نامور سیاستدان اور ممتاز شاعر اجمل خٹک 15 ستمبر 1926ء کو اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ باچاخان کے پیروکار اور نیشنل عوامی پارٹی کے سرگرم رہنما تھے۔ نیپ پر پابندی کے بعد انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور اس کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں انہوں نے طویل عرصہ تک افغانستان میں جلاوطنی بھی کاٹی۔ 1990ء سے 1993ء کے دوران وہ قومی اسمبلی اور 1994ء سے 1999ء تک سینٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ اجمل خٹک پشتو اور اردو کے اہم اہل قلم میں بھی شمار ہوتے تھے۔ان کا مجموعہ کلام جلاوطن کی شاعری کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پرانہیں 2007ء کا کمال فن ایوارڈ بھی عطا کیا تھا۔ 7 فروری 2010ء کو اجمل خٹک نوشہرہ میں وفات پاگئے اور  اکوڑہ خٹک میں آسودۂ خاک ہوئے۔
1958-05-09
6669 Views
ڈاکٹر خان صاحب ٭9 مئی 1958ء کی صبح‘ صوبہ مغربی پاکستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور ری پبلکن پارٹی کے بانی اور صدر ڈاکٹر خان صاحب کو ایک سابق پٹواری عطا محمد نے لاہور میں قتل کردیا۔ ڈاکٹر خان صاحب‘ جن کا پورا نام عبدالجبار خان تھا‘ ان دنوں لاہور آئے ہوئے تھے اور اپنے بیٹے سعد اللہ خان کے گھر مقیم تھے ۔ 9 مئی 1958ء کی صبح ایک سابق پٹواری‘ عطا محمد نے ان سے ملاقات کی۔ عطا محمد کو دو برس پہلے اس کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔ اس نے ڈاکٹر خان صاحب سے کہا کہ وہ اس کی بحالی کے سلسلے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ ڈاکٹر خان صاحب نے اس سے کہاکہ وہ حصول انصاف کے لیے متعلقہ حکام سے جاکر ملے ‘ وہ اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ تھوڑی دیر بعد عطا محمد اچانک بنگلے میں دوبارہ داخل ہوا اور اس نے چاقو کے پے در پے وار سے ڈاکٹر خان صاحب کو شدید زخمی کردیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کو فوراً میو ہسپتال لے جایا گیا جہاں پہنچتے ہی انہوں نے دم توڑ دیا۔ ان کی میت ایک خصوصی طیارے کے ذریعے پشاور لے جائی گئی شام کے وقت انہیں اتمان زئی کے مقام پر سپرد خاک کردیا گیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کے قاتل عطا محمد کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس پر مقدمہ چلا اور 10 فروری 1961ء کو اسے پھانسی دے دی گئی۔  
1962-06-06
3782 Views
میاں افتخار الدین ٭6 جون 1962ء پاکستان کے مشہور سیاست دان اور صحافی میاں افتخار الدین کی تاریخ وفات ہے۔ میاں افتخار الدین 8اپریل 1907ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوںنے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس سے کیا تھا لیکن 1945ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد میاں صاحب پنجاب کی صوبائی وزارت میں مہاجرین بحالیات کے وزیر رہے لیکن چند ہی ماہ کے بعدوہ وزیراعلیٰ افتخار حسین ممدوٹ سے اختلاف کے باعث اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ وہ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر بھی رہے لیکن اپنی نظریات کی بنا پر 17 جون 1950ء کو مسلم لیگ سے خارج کردیئے گئے جس کے بعد نومبر 1950ء میں ا نہوںنے اپنے کچھ ہم خیال دوستوں کے ہمراہ آزاد پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1955ء میں وہ دوسری مرتبہ دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1956ء میں انہوں نے اپنی پارٹی کو نیشنل عوامی پارٹی میں ضم کردیا۔ میاں افتخار الدین سیاست کے علاوہ صحافت کے میدان بھی بڑے فعال تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ پروگریسو پیپرز کا قیام تھا جس کے زیر اہتمام انہوں نے پاکستان ٹائمز‘ امروز اور لیل و نہار جیسے اخبار و جرائد جاری کیے۔ میاں افتخار الدین نہایت زیرک‘ فعال‘ سیماب صفت اور اپنے موقف پر اڑنے اور لڑنے والے کردار کے مالک تھے۔ اکتوبر 1958ء کے مارشل لاء کے بعد انہیں بے انتہا پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اپریل 1959ء میں مارشل لاء حکومت نے ان کے ادارے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ میاں افتخار الدین نے حکومت کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا لیکن ایک مارشل لاء آرڈیننس کے ذریعے اس معاملے میں عدالت کا دائرۂ اختیارختم کردیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد میاں افتخار الدین شدید عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے اور اسی عارضے میں 6 جون 1962ء کو انتقال کرگئے۔ وہ باغبان پورہ لاہور میں اپنے خاندانی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں  
1981-10-22
4095 Views
خان عبدالقیوم خان ٭22 اکتوبر 1981ء کو پاکستان کے نامور سیاستدان خان عبدالقیوم خان اسلام آباد میں وفات پاگئے اور حسن گڑھی ضلع پشاور میں آسودۂ خاک ہوئے۔ خان عبدالقیوم خان 16 جولائی 1901ء کو چترال میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ پشاور، علی گڑھ، اور لندن کے فارغ التحصیل تھے۔ 1937ء میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی اور پارلیمانی زندگی کا آغاز کیا تاہم قیام پاکستان سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئے اور پھر تمام عمر نہ صرف اسی جماعت کے دامن سے وابستہ رہے بلکہ اس کی قیادت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ خان عبدالقیوم خان، سرحد کے وزیراعلیٰ، وفاقی وزیر خوراک و زراعت، وفاقی وزیر صنعت اور وفاقی وزیر داخلہ کے مناصب پر فائز رہے تھے۔ 1977ء کے عام انتخابات میں شکست کے بعد وہ سیاست سے کنارہ کش ہوگئے اور اسی گوشہ گیری کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
1982-05-01
4269 Views
میررسول بخش تالپور ٭یکم مئی 1982ء کو پاکستان کے معروف سیاستدان میر رسول بخش تالپور دنیا سے رخصت ہوئے۔وہ 23 اکتوبر 1920ء کو ٹنڈو میر محمود کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے دہلی کے مدرسۂ رحمانیہ اور جامعہ ملیہ اور کراچی کے سندھ مدرستہ الاسلام سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز میونسپل کمیٹی حیدرآباد کی رکنیت سے ہوا بعدازاں وہ اس کمیٹی کے چیئرمین بھی بنے۔ 1958ء میں انہوں نے عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1964ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ 1967ء میں جب پاکستان پیپلزپارٹی کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس کے اساسی ارکان میں شامل ہوئے اور پیپلزپارٹی سندھ کے پہلے چیئرمین مقرر ہوئے۔ 1970ء میں وہ سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 29 اپریل 1972ء سے 13 فروری 1973ء تک صوبہ سندھ کے گورنر رہے۔ پھر پیپلزپارٹی کے چیئرمین کے ساتھ بعض معاملات میں اختلافات کی بنا پر وہ پارٹی کی رکنیت اور صوبہ سندھ کی گورنری دونوں سے مستعفی ہوگئے۔مئی 1981ء میں وہ صوبہ سندھ کے سینئر وزیر مقرر ہوئے۔ اپنے انتقال کے وقت وہ اسی عہدے پر فائز تھے۔  
1982-05-29
4681 Views
فاطمہ بھٹو ٭29 مئی1982ء کو پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی، میر مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی اوربے نظیر بھٹو کی بھتیجی فاطمہ بھٹوافغان دار الحکومت کابل میں پیدا ہوئیں ،جہاں ان کے والد جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ فاطمہ بھٹو کی والدہ فوزیہ فصیح الدین بھٹو افغان وزارت خارجہ اہلکار کی بیٹی تھیں۔ان کی سوتیلی والدہ غنویٰ بھٹو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی(شہید بھٹو) کی چیئر پرسن ہیں۔فاطمہ بھٹو کے والد میر مرتضیٰ بھٹو20 ستمبر 1996ء کو اپنی بہن بے نظیر بھٹو کے دور وزارت عظمیٰ میں قتل ہوئے تھے۔ فاطمہ بھٹو نے ابتدائی تعلیم دمشق(شام) میں حاصل کی۔1993ء میں وہ اپنی سوتیلی والدہ غنویٰ بھٹو اور چھوٹے بھائی ذوالفقار بھٹو جونیئر کے ساتھ پاکستان آگئیں۔ انہوں نے کراچی امریکن اسکول سے او لیول کیا۔ پھر2004ء میں کولمبیا یونیورسٹی ،نیویارک سے امتیازی نمبروں کے ساتھ گریجویشن کیا۔گریجویشن میں ان کا خاص مضمون مشرق وسطیٰ میں بولی جانے والی زبانیں اور کلچرتھا۔2005ء میں انہوں نے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقین اسٹیڈیز سے’’سائوتھ ایشین گورنمنٹ اور سیاسیات‘‘ میں ماسٹرز کیا۔ فاطمہ بھٹو شاعرہ اور ادیب ہیں اور وہ پاکستان ، امریکہ اور برطانیہ کے مختلف اخباروں میں کالم بھی لکھتی ہیں۔1997ء  پندرہ برس کی عمر میں فاطمہ بھٹو کا پہلا شعری مجموعہ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان سے شائع ہو اجس کا عنوان WHISPERS OF THE DESERY (صحرا کی سرگرشیاں) تھا۔2006ء میں ان کی دوسری کتاب 8اکتوبر2005ء کو آزاد کشمیر اورصوبہ سرحد میں آنے والے زلزلے کے موضوع پر ’’8 October 2005 8:50am‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ ان کی تیسری کتاب ’’Songs of Blood and Sword‘‘ کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔  
1987-04-13
2960 Views
میاں محمود علی قصوری ٭13 اپریل 1987ء کو پاکستان کے نامور ماہر قانون، سیاستدان اور شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے جدوجہد گزار میاں محمود علی قصوری قصور میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ میاں محمود علی قصوری 31 اکتوبر 1910ء کو قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیم پونا، بمبئی، لاہور اور لندن میں حاصل کی۔ 1935ء میں وہ وطن واپس لوٹے اور لاء کالج میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے، ساتھ ہی ساتھ وہ وکالت سے بھی منسلک رہے اور اسی دوران انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ سے اپنی سیاسی زندگی کا بھی آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے میاں افتخار الدین کے ساتھ آزاد پاکستان پارٹی کے قیام میں فعال حصہ لیا جو 1955ء میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کا حصہ بن گئی۔ 1970ء کے عام انتخابات سے چند عرصہ قبل ذوالفقار علی بھٹو کے پرزور اصرار پر وہ پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور 1971ء میں لاہور سے بھٹو کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ دسمبر 1971ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہونے پر وہ وزیر قانون اور پارلیمانی امور کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس عہدے پر کام کرتے ہوئے ان کا سب سے بڑا کارنامہ عبوری آئین کی تیاری اور نفاذ تھا مگر جلد ہی ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف کے باعث 4 اکتوبر 1972ء کو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ 7 جون 1973ء کو انہوں نے تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی۔ اس جماعت کے ساتھ ان کی وابستگی ان کی وفات تک جاری رہی۔
1993-05-01
5035 Views
عظیم احمد طارق ٭یکم مئی 1993ء کو عام تعطیل کا دن تھا مگر صبح ہی صبح یہ خبر کراچی کے ایک ایک گھر تک پہنچ چکی تھی کہ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین عظیم احمد طارق قتل کردیئے گئے ہیں۔ عظیم احمد طارق کا شمار مہاجر قومی موومنٹ کے معتدل مزاج رہنمائوں میں ہوتا تھا۔ جون 1992ء میں جب مہاجر قومی موومنٹ کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا تھا تو تنظیم کے دیگر رہنمائوں کی طرح عظیم احمد طارق بھی زیر زمین چلے گئے تھے۔ وہ 29 نومبر 1992ء کو منظر عام پر آئے، اس موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ صرف اور صرف مہاجر عوام کے مستقبل، کراچی کو خون خرابے سے بچانے اور ملک کی سلامتی کی خاطر منظرعام پر آگیا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ گولی اور گالی کی سیاست کو خیرباد کہہ کر کسی طریقے سے پارٹی کو بچالوں، مجھے ہر طرف خون نظر آرہا ہے۔ عظیم احمد طارق کے منظرعام پر آنے کے بعد آفاق احمد نے انہیں ایم کیو ایم حقیقی کی قیادت سنبھالنے کی پیشکش کی۔ مگر عظیم احمد طارق نے ان کی یہ پیشکش منظور نہیں کی۔ دوسری جانب عظیم احمد طارق نے الطاف گروپ سے منسوب کئے گئے عقوبت خانوں کی بھی مذمت کی اور ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس دوران انہوں نے گورنر سندھ، صدر پاکستان اور سندھ کے کورکمانڈر سے بھی ملاقاتیں کیں۔ یوں آہستہ آہستہ وہ اپنے علیحدہ گروپ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگئے اور ایم کیو ایم تین دھڑوں میں بٹ گئی۔ 22 اپریل 1993ء کو عظیم احمد طارق ایک مقدمے کے سلسلہ میں عدالت میں حاضر ہوئے، جہاں ان سے ایم کیو ایم کے ناراض کارکنوں نے خاصی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا مگر عظیم احمد طارق نے انہیں معاف کرنے کا اعلان کردیا۔ یکم مئی 1993ء کی رات عظیم احمد طارق دستگیر سوسائٹی کراچی میں اپنی سسرال میں سو رہے تھی کہ نامعلوم افراد ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے عظیم احمد طارق پر کلاشنکوف کا برسٹ مار کر انہیں قتل کردیا۔ وہ فوراً ہی جاں بحق ہوگئے۔ 11 جولائی 1993ء کو کراچی پولیس نے بتایا کہ عظیم احمد طارق کے قاتلوں کو گرفتار کرلیا گیا جن کے نام انعام الحق اور عامر ہیں۔ ان سے وہ ہتھیار بھی برآمد کرلئے گئے ہیںجن سے انہوں نے عظیم احمد طارق کو قتل کیا تھا۔
1993-05-09
4292 Views
جنرل شیر محمد مری ٭9 مئی 1993ء کو بلوچستان کے مشہور سیاسی رہنما اور گوریلا لیڈر شیر محمد مری دہلی میں وفات پاگئے۔ شیر محمد مری سردار خیر بخش مری کے دیرینہ ساتھی تھے ان کی شہرت کا آغاز 1946ء میں اس وقت ہوا جب انہوں نے میر نہالان خان بجارانی کے ساتھ مل کر مظلوم پارٹی کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے کوہلو کے مقام پر پارٹی کا پہلا کنونشن منعقد کیا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے اور نتیجہ ان کی گرفتاری کی صورت میں نکلا۔ قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے دور میں جب بلوچستان پر فوج کشی کی گئی تو شیر محمد مری نے اس کے خلاف مسلح جدوجہد کی جس پر سردار اکبر بگٹی نے انہیں جنرل شیروف کا خطاب دیا۔ 1961ء سے 1966ء تک ان کی جدوجہد کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1973ء میں انہیں حیدرآباد سازش کیس کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تاہم جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں 5 فروری 1978ء کو انہیں رہا کردیا گیا۔ 1980ء میں وہ پہلے کابل اور پھر دہلی چلے گئے جہاں انہوں نے ایک طویل عرصہ قیام کیا۔ 11 مئی 1993ء کو دہلی میں ان کا انتقال ہوگیا ان کی میت پاکستان لائی گئی جہاں وہ نیسوبا، کوہلو (بلوچستان) میں آسودۂ خاک ہوئے۔ شیر محمد مری کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے وہ ایک اچھے ادیب اور محقق بھی تھے۔ ان کی تصانیف میں بلوچی زبان و ادب کی تاریخ، بلوچی اردو لغت اور بلوچی کہنیں شاعری شامل ہیں۔  
2003-06-27
3445 Views
یحییٰ بختیار ٭27 جون 2003ء کو پاکستان کے نامور ماہر قانون یحییٰ بختیار کوئٹہ میں وفات پاگئے۔ یحییٰ بختیار 1923ء میں کوئٹہ ہی میں پیدا ہوئے تھے۔کوئٹہ اور لاہور سے تعلیم کے مختلف مدارج طے کرنے کے بعد انہوں نے لندن سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1941ء میں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نائب صدر بھی رہے۔1965ء میں انہوں نے ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 20 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پاکستان کا اٹارنی جنرل مقرر کیا۔1972ء اور 1973ء میں انہوں نے دو مرتبہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔1974ء میں انہوں نے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی کارروائی کے دوران قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد اور لاہوری جماعت کے سربراہ صدر الدین عبدالمنان عمر اور مسعود بیگ پر جرح کی ۔ اسی برس اکتوبر  میں وہ پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے۔ 1977ء سے 1979ء کے دوران انہوں نے بھٹو کے مشہور مقدمہ قتل میں ان کے وکلا کے پینل کی سربراہی کی۔ مگر اپنی تمام تر قانونی مہارت کے باوجود وہ بھٹو کو موت کے چنگل سے نہیں بچاسکے۔ یحییٰ بختیار سینٹ آف پاکستان اور قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ 1988ء میں وہ ایک مرتبہ پھر اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ مارچ 1991ء میں انہیں سینٹ آف پاکستان کا رکن منتخب کیا گیا جہاں وہ نومبر 1993ء تک قائد حزب اختلاف کا فریضہ نبھاتے رہے۔ یحییٰ بختیار کوئٹہ کے نزدیک کلی شیخاں کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
UP